ایک متنازع صحافی کی موت

Death of a Controversial Journalist
ایک متنازع صحافی کی موت
معصوم مرادآبادی
 ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کے انتقال کی اطلاع اگرخود ان کے ای۔ میل سے نہیں آئی ہوتی تو شاید اس پریقین کرنے میں مجھے کچھ وقت لگتا۔ وہی میل آئی ڈی جس سے ہرہفتہ وہ اپنا تازہ کالم مجھے بھیجتے تھے۔جس روز ان کا نتقال ہوا، اس دن بھی ایران سعودی سفارتی رشتوں کی بحالی پر ان کا کالم ہندی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔وہ آسان زبان میں مختصرکالم لکھتے تھے اور اس میں بڑی روانی ہوتی تھی۔ وہ بلاشبہ اس وقت ہندی کے سب سے بڑے صحافی تھے۔ کم وبیش 200 اخبارات میں ان کا ہفتہ واری کالم شائع ہوتا تھا۔ سیاست، سماج، سفارت اور بین الاقوامی امور پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وہ نہ صرف عالمی امور کی بہترین جانکاری رکھتے تھے بلکہ بقول خود کئی ملکوں کے سربراہوں سے ان کے نجی مراسم بھی تھے۔ نجی گفتگو میں وہ ان سربراہان مملکت سے اپنی ملاقاتوں اور قربتوں کے قصے دلچسپ انداز میں بیان کرتے تھے۔ حالانکہ ان کا وطنی تعلق مدھیہ پردیش(اندور)سے تھا، لیکن ان کی گفتگو میں لکھنؤ کی قصہ گوئی کاانداز تھا۔ وہ دلچسپ گفتگو کرتے تھے اور محاروں کے استعمال پر بھی قادر تھے۔اس لیے ان سے گفتگو کرنا اچھا لگتا تھا۔’ تیتربٹیرلڑانا ‘ ان کا ایک محبوب محاورہ تھا جو وہ موجودہ سیاست دانوں کے بارے میں کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ صحافتی حلقوں میں انھیں ایک متنازع شخصیت کے طورپر جانا جاتا تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کی خبر اخبارات میں وہ جگہ نہیں پاسکی جس کے وہ مستحق تھے۔
 کئی برس پہلے حیدرآباد میں ایک عالمی میڈیا کانفرنس کے دوران مسلسل تین روز تک ان سے ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں۔ ان کی گفتگو سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہی اس وقت دنیا کے سب سے اہم صحافی ہیں، جن کی دسترس میں درجنوں سربراہان مملکت ہیں۔ ملکی سیاست دانوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو، جس سے ان کی قربت نہ ہو۔ افغانستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے سربراہان مملکت بھی ان کے دوستوں میں شامل تھے۔ وہ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘کا بھی حصہ تھے اور عرب ملکوں سے ہندوستان کے مراسم میں بھی دخیل تھے۔ ان کی گفتگو میں حقیقت اور مبالغہ کی جو آمیزش ہوتی تھی، وہی ان کی گفتگو کو دلچسپ بھی بناتی تھی۔ان کے تعلقات متحدہ عرب امارات، بحرین،کویت اورعراق کے حکمرانوں سے بھی رہے۔انھوں نے80 سے زیادہ ملکوں کا سفر کیااوروہ عدنان خشوگی جیسے کرداروں کے بھی قریب رہے۔لوگ آخر تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر ان کے پاس جادو کی ایسی کون سی چھڑی ہے جس کے بل پر وہ بڑے بڑے حکمرانوں کو رام کرلیتے ہیں۔ان کا شمار یوگ گرو بابارام دیو کے خاص مصاحبین میں ہوتا تھا۔
ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کا صحافتی سفر ساٹھ برسوں پر محیط ہے۔انتقال کے وقت ان کی عمر 78برس تھی اور ان کی موت غسل خانے میں دل کا شدید دورہ پڑ نے کی وجہ سے ہوئی۔وہ ہندی کے سب سے بڑے پیروکار تھے، لیکن تنگ نظر نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں ہندی کے مشکل الفاظ کی بجائے اردو محاروں کا استعمال کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی تحریریں اردو اخبارات میں بھی شائع ہوں۔انگریزی خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ہندی سروس ’بھاشا‘ کو شروع کرانے میں ان کا کلیدی رول  تھا۔ وہ اس ایجنسی کے تقریباً دس برسوں تک بانی ایڈیٹربھی رہے۔ اس سے قبل انھوں نے ’نوبھارت ٹائمز‘کے نظریاتی ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔انھوں نے سفارت، صحافت،ہندی زبان اور عصری موضوعات پر کئی کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک کتاب کا عنوان ہے”بھاجپا، ہندتواور مسلمان“۔انھیں کئی ایوارڈ بھی ملے لیکن وہ پدم ایوارڈوں سے محروم رہے۔ ان کا غالب رجحان دائیں بازو کی سیاست کی طرف تھا۔ وہ آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے بھی قریب تھے۔ 2014میں بی جے پی کے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد حکمران وقت سے ان کی قربت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ جلد ہی راجیہ سبھا  کے رکن بنادئیے جائیں گے، مگر یہاں انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی، جس نے سیاست میں ان کے لیے کانٹے بچھادئیے۔
جولائی2014میں وہ نہ جانے کس ترنگ میں لاہور پہنچے اور انھوں نے وہاں جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید سے ملاقات کی۔اس ملاقات کی خبر شائع ہوتے ہی ہندوستان میں کہرام مچ گیا۔ پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس جاری تھا۔ کانگریس نے حکومت سے ڈاکٹرویدک کی قربت کے پس منظر میں اسے ایک بڑا موضوع بنادیا۔ یہاں تک کہ لوک سبھا کے دوممبران نے ان پرغداری کا مقدمہ قایم کرکے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرڈالا،جس پر وہ چراغ پا ہوگئے اور انھوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ”صرف دوارکان ہی نہیں پوری پارلیمنٹ کو اتفاق رائے سے قرار داد پاس کرکے مجھے پھانسی پر لٹکانا چاہئے۔میں ایسی پارلیمنٹ پر ۔۔۔۔۔۔ ہوں۔“
حافظ سعید کو چونکہ ممبئی حملوں کا ماسٹرمائنڈ قرادیا گیا تھا اور وہ ہندوستان کو مطلوب دہشت گردوں میں سرفہرست تھے، اس لیے مودی سرکار ڈاکٹر ویدک کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔اس وقت کی وزیرخارجہ سشماسوراج نے اس بات کی تردید کی کہ ڈاکٹر ویدک اور حافظ سعید کی ملاقات ہندوستانی ہائی کمیشن نے طے کرائی تھی۔حالانکہ کسی صحافی کا کسی دہشت گرد سے انٹرویو لینا کوئی انوکھی بات نہیں تھی، لیکن اس دوران ساری توپوں کا رخ ڈاکٹر ویدک کی طرف تھا اوروہ میڈیا کا کھلونا بن چکے تھے۔ ارنب گوسوامی کے چینل نے ان کی سب سے زیادہ گھیرابندی کی تھی۔ یہی وجہ ہے گڑگاؤں میں اپنے گھر پر پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے ’ٹائمز ناؤ‘ کے نامہ نگار کو دیکھتے ہی ’گیٹ آؤٹ‘ کہا تھا۔وہ مضبوط اعصاب کے انسان تھے لیکن حافظ سعید سے ملاقات نے انھیں متنازعہ بنادیا تھا جس کی انھوں نے زبردست سیاسی قیمت چکائی۔
ڈاکٹر ویدک کی پیدائش 30 دسمبر1944 کو اندور میں ہوئی تھی۔انھیں ہندی، انگریزی کے علاوہ فارسی، روسی،جرمن اور سنسکرت کی بھی جانکاری تھی۔انھوں نے نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی سے’بین الاقوامی سیاست‘ پر پی ایچ ڈی کی تھی اور ریسرچ کے دوران وہ نیویارک، ماسکو، لندن اور کابل کی یونیورسٹیوں میں بھی گئے تھے۔وہ ہندوستان کے ایسے پہلے اسکالر تھے جس نے اپنا تحقیقی مقالہ ہندی میں لکھا، اسی بنیاد پر یونیورسٹی سے ان کا اخراج بھی ہوا، جو ایک قومی مسئلہ بنا۔ اس مسئلہ پر67-1965 میں پارلیمنٹ میں بحث بھی ہوئی تھی۔اس موقع پر انھیں جن لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی ان میں رام منوہرلوہیا، اچاریہ کرپلانی، گرو گولوالکر، اندرا گاندھی، دین دیال اپادھیائے، اٹل بہاری واجپئی،چندرشیکھر، ہری ونش رائے بچن اور ڈاکٹر ذاکر حسین شامل ہیں۔انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور اسی کے بعد ہندوستانی زبانوں میں ریسرچ کے دروازے کھلے۔وہ کئی بار لسانی تحریک کے دوران جیل بھی گئے۔مجموعی طورپر وہ ایک دلچسپ انسان تھے اور ان سے مل کر کوئی بور نہیں ہوسکتا تھا۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment