کسی بھی عبادتگاہ کے کردار کی تبدیلی کے لئے عدالت میں اپیل بھی غیر قانونی ہے

Press conference organized by Socialist Party (India) on Places of Worship Act 1991

کسی بھی عبادتگاہ کے کردار کی تبدیلی کے لئے عدالت میں اپیل بھی غیر قانونی ہے
سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا کے زیر اہتمام پریس کلب آف انڈیا میں ورشپ ایکٹ 1991 پر پریس کانفرنس کا انعقاد

نئی دہلی 8 اپریل۔ پریس کلب آف انڈیا، نئی دہلی میں سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا نے ورشپ(عبادت گاہ) ایکٹ 1991 پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں پریس کو مخاطب کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی (انڈیا) کے قومی صدر ایڈوکیٹ تھمپن تھامس، ایڈوکیٹ انیل نوریہ، ایڈوکیٹ اندرا اُننی نائر نے خطاب کیا۔ ایڈوکیٹ ششانک سنگھ نے صدارت کی اور سوشلسٹ پارٹی (انڈیا) کے جنرل سکریٹری شیام گمبھیر نے شکریہ کی تجویز پیش کی۔
تھمپن تھامس نے کہا کہ ایک بار ورشپ ایکٹ کے قانون بن کر نافذ ہوجانے کے بعد ایودھیا کے علاوہ متھرا اور کاشی سمیت کسی بھی عبادت گاہ پر کیس فائل کرنا یا شنوائی کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے اور یہ صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کی نیت سے کیا جارہا ہے۔ ہمیں آنے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانا ہو گا تاکہ سیاست میں مذہب کے استعمال کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سامنے اور بھی چیلنجز ہیں، جیسے غربت، بے روزگاری، مہنگائی وغیرہ، لیکن بی جے پی نے ان مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے۔ الیکٹورل بانڈز کے ذریعے کمپنیوں پر چھاپے مار کر کمپنیوں سے چندہ جمع کیا گیا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ قصوروار لیڈروں کے خلاف کارروائی ہو سکے۔
اندرا اننی نائرنے بتایا کہ انہوں نے سوشلسٹ پارٹی (انڈیا) کے لیڈر بلونت سنگھ کھیڑا کی جانب سے شرومنی اکالی دل کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ شرومنی اکالی دل نے دو آئین بنائے ہیں، ایک عام انتخابات کے لیے اور دوسرا گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹیوں کے انتخابات کے لیے، جو سیکولرازم کی آئینی قدر کے خلاف ہے۔ یہ کیس زیر سماعت ہے لیکن عدالت اپنا فیصلہ نہیں دے رہی۔ اندرا اننی نائر اب دوسرا مقدمہ دائر کرنے جا رہی ہیں جس میں سیاست میں مذہب کے استعمال کو چیلنج کیا جائے گا۔
انیل نوریہ نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہوں کے قانون کا مقصد، جس کے بارے میں اس وقت کے صدر وینکٹ رمن نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بابری مسجد جیسے معاملات کو مزید نہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے 1924 میں مہاتما گاندھی کی طرف سے شروع کیے گئے روزے کے دوران منعقدہ بین المذاہب میٹنگ میں منظور کی گئی قرارداد کا بھی حوالہ دیا، جس میں مدن موہن مالویہ اور سوامی شردھانند بھی موجود تھے، کہ کسی بھی مذہبی مقام پر اس کے کردار کی تبدیلی کی نیت سے حملہ نہیں ہونا چاہیے۔ 1991 کے ایکٹ کی طرح اس میں بابری مسجد جیسی کوئی رعایت نہیں چھوڑی گئی کیونکہ اس وقت تک رام جنم بھومی کے لیے کوئی تحریک نہیں چلی تھی۔ اس ملاقات کی تصدیق جواہر لال نہرو نے اپنی سوانح عمری میں کی ہے۔
میٹنگ کے آغاز میں سوشلسٹ ایڈووکیٹ فورم تشکیل دی گئی جسمیں ایڈوکیٹ انیل نوریہ کو صدر اور کو ایڈوکیٹ ششانک سنگھ آرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ ششانک سنگھ کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ دوسرے وکلاء سے بات کریں اور انہیں سوشلسٹ ایڈوکیٹس فورم میں شامل کریں۔
سوشلسٹ پارٹی (انڈیا) اور سوشلسٹ ایڈووکیٹ فورم اس بات کے لیے پرعزم ہے کہ ہندوستانی آئین میں سیکولرازم کی قدر کی حفاظت کی جانی چاہیے اور ملک اور معاشرے میں تمام مذاہب کی مساوات کی روح پر عمل کیا جانا چاہیے۔ وہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست کو مسترد کرتی ہے۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment