عصری تعلیم اوردینی مدارس چیلینج اورتقاضے

احمد نادرالقاسمی۔

موجودہ دنیامیں عصری تعلیم کی جواہمیت ہے اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔جسے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دور جدیدکی دنیاکاجورنگ اورڈھنگ ہے اس میں عصری تعلیم ایک ناگزیر ضرورت بھی ہے اورتقاضا بھی ہیے ۔مگر دینی مدارس میں راٸج مکمل دینی مواد کے ساتھ اسے کس طرح پڑھایاجاٸے گا ۔اس کی ترتیب کیاہوگی ۔اورچھ یا آٹھ گھنٹے کے دورانیہ کی تقسیم کس طرح ہوگی۔؟ ۔اورپھر مدرسے والے ایک ساتھ دونوں تعلیمی مواد کو پڑھانے والے اساتذہ اپنے محدود وساٸل میں کہاں سے لاٸیں گے اوراخراجات کس طرح پورے کریں گے ۔بچے دونوں تعلیمی مواد کو ایک ساتھ ہضم اورضبط کرپاٸیں گے یانہیں۔؟ ۔

یہ ایک بڑاچیلنج ہوگا ۔اس لٸےکہ دونوں تعلیم کا اپنااپنا مزاج اورنہج ہے ۔ظاہر ہے گھنٹوں کادورانیہ جو تعلیمی اداروں میں ہوتاہے ۔اس کوتو بڑھایانہیں جاسکتا ۔کیوں ذہنی اوردماغی طورپر بچے اسکے متحمل نہیں ہوں گے۔اورزیادہ بوجھ بچوں پر اگر ڈالاجاٸے گا تو بچے یاتو بیمار ہوجاٸیں گے۔یا تعلیم چھوڑکر گھروں کی راہ لیں گے ۔اس پر انسانی نفسیات۔اور انسان کی ڈہنی صلاحیت کیا اورکتنی ہوتی ہے اسکے ماہرین اور اطبا ٕ ہی اچھی طرح روشنی ڈال سکتے ہیں ۔کہ کچی عمر کےبچوں کو 24گھنٹے میں کتنا پڑھنا اورکتناکھیلنا چاہیٸے ۔اوربچوں کو بدنی ریاضت اورآرام کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بات تواپنی جگہ بہت اچھی لگ رہی ہےکہ ”مدارس دینیہ میں سنیر سکنڈری درجے کی لازما تعلیم دی جاٸے “مگر اس کوممکن کیسے بنایاجاٸے گا ۔اس کا میکانزم اورطریقہ کار کیاہوگا ؟اور مدرسے والے دونوں قسم کے اساتذہ کے لٸے وساٸل کہاں سے لاٸیں گے ا س پرغوروفکر ضروری ہے ۔دوسری طرف ملک کے جوحالات بنتے جارہے ہیں مدرسے والوں کے وساٸل پرمختلف طریقے اوربہانوں سے بندشیں لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔لوگ مدرسوں میں اپنی زکوة وعطیات تک کی رقمیں دینے میں خوف زدہ ہیں ۔کہ ہم سے اگرحکومت نے حساب مانگ لیاتو ہم کیاجواب دیں گے ۔اس لیے بہتر ہے کہ مدرسوں میں دینے کی بجاٸے عام غربا ٕ ومساکین کودے کر جان چھڑالیں ۔اوریہ بھی حقیقت ہے ۔بلکہ علما ٕ کے فتاوے موجودہیں کہ زکوة کی رقم صرف دینی تعلیم دینے والے مدرسوں کودیاجاٸے اورلوگ اسی کودیتے ہیں ۔لوگوں کے دماغ میں یہاں تک بٹھایاگیاہے کہ عصری اداروں میں زکوة دینے سے زکوة ہی ادانہیں ہوتی ۔

اب اگر مدرسے والے عصری تعلیم کاکوٸی طریقہ کار وضع بھی کرلیں تومسلمانوں کے اس رجحان کو کیسے تبدیل کیاجاٸے گا ۔کیونکہ ہم نے خود مسلمانوں کے دماغ میں یہ بیج بویاہے۔۔اس چیلنج کا حل کیاہے؟میرے ناقص خیال میں اس چیلنج کا بس یہ حل نظرآتاہے کہ مدرسوں کو ”اسلامی اسکول“میں تبدیل کرکے اس میں ہاٸی اسکول تک صرف عصری تعلیم دی جاٸے۔ او اس مرحلہ میں دینی مواد بس ضروری حد تک رکھاجاٸے ۔اورتمام مدرسوں کو پراٸمری یا ہاٸی اسکول تک ریکگناٸز کرایاجاٸے ۔اور12ویں کلاس کے بعد جوبچے دینی تعلیم مکمل کرناچاہیں انھیں عالمیت یافضیلت تک مکمل دینی تعلیم دی جاٸے ۔اوراس دوران جوبچے یونیورسٹیز سے پراٸویٹ طورپر ملحق ہوناچاہیں انھیں موقعہ دیاجاٸے ۔مگریہ بات ملحوظ رہے کہ ہاٸی اسکول تک کی تعلیم کے نام پر مدارس دینیہ کے قیام کامقصدفوت نہ ہونے پاٸے ۔

اس لٸے کہ ہمارے لٸے بہر حال دنیا ملے یانہ ملے ۔وہ تو ان شا ٕ اللہ مل ہی جاٸے گی۔دین مقدم اورضروری ہے۔اوردینی مدارس ہمارے دین کی بقا کی ضمانت ہیں ۔اسلٸے کہ جس رب نے ہمیں اس دنیامیں بھیجاہے ۔ساٸنس وٹکنالوجی کی معرفت ہویانہ ہو ۔اس ذات کی معرفت ضروری اورلازمی ہے اورتعلیم کایہی مقصد اصلی ہے۔جیساکہ یہ آیت بتارہی ہے۔ ”اقرأ باسم ربک الذی خلق ۔خلق الانسان من علق۔اقرأ وربک الأکرم ۔

الذی علم بالقلم۔“ (سورہ علق)۔دوسری طرف یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ دینی تعلیم کی ہمارے لیٸے کتنی اہمیت ہے ۔اورزمانے اورحالات یاحکومتی دباو کی وجہ سے اگر ہم اپناطریقہ کار بالکل تبدیل کرلیتے ہیں تو اس کے کیانتاٸج ہوں گے ۔ظاہرہے جو چیزہمیں مدرسہ دے رہاہے وہ عصری تعلیم کے ادارے ہمیں اورہمارے بچوں کو نہیں دے سکتے ۔اس کے لٸے اس ملک میں ملت کی بقا کی خاطر مدرسوں کانظام باقی رہنالازم ہے ۔اگرچہ اس کے ساتھ عصری تعلیمی مواد شامل کرلیاجاٸے ۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment