کیا لال قلعہ سے یہ مودی جی کی آخری تقریر تھی؟

Was this Modiji's last speech from Lal Qila?

کیا لال قلعہ سے یہ مودی جی کی آخری تقریر تھی؟
گھبراہٹ، لڑکھڑاہٹ اور انانیت کی ملغوبہ تھی
عبدالعزیز
لال قلعہ کی تقریر سے پہلے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر نریندر مودی نے دو گھنٹے 13منٹ تقریر کی تھی۔ یہ تقریر بھی کسی پارلیمنٹ سیشن کی تقریر کے بجائے کسی ریلی یا جلسہ گاہ کی تقریر معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ راہل گاندھی کی تقریر کے جواب میں ان سے کچھ بن نہیں پڑ رہا ہے کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ وہ تقریر میں صرف گاندھی پریوار کو نشانہ بنائے ہوئے تھے اور 2024ء میں تیسری بار اقتدار میں آنے کا اعلان کر رہے تھے۔ انا پرستی سے بھی تقریر بھری تھی۔ موجودہ حالات یا منی پور کے مسئلے پر بولنے سے قاصر تھے۔ یہ بھی معلوم ہورہا تھا کہ یہ ان کی آخری اننگ ہے جس کا وہ اعلان بار بار کر رہے تھے۔
یوم آزادی کے موقع پر ٹھیک اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی بدتر تقریر تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر من موہن سنگھ تک کسی نے بھی ’میں، میں‘ کا بار بار استعمال نہیں کیا۔ ان کی تقریر سے گھبراہٹ اور لڑکھڑاہٹ دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ خود بھی محسوس کر رہے ہیں اور ان کے ارد گرد لوگ بھی سمجھ رہے ہیں کہ شاید لال قلعہ سے یہ ان کی آخری تقریر ہے۔ اگر ایسی بات نہیں ہوتی تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے پرستاروں کو بار بار یقین دہانی نہیں کراتے کہ 2024ء میں 15 اگست کو پھر اسی لال قلعہ سے ملک و قوم کو خطاب کریں گے۔ مودی کی شخصیت کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ کبھی اپوزیشن میں نہیں رہے۔ اس لئے وہ اپوزیشن میں رہنے کا خواب تک نہیں دیکھتے۔ جب وہ اجنبی سیاست دانوں میں تھے تو کبھی کبھی ٹی وی کی اسکرین پر دکھائی دیتے تھے۔ ایک بار بی جے پی کے سکریٹری بنائے گئے تھے اور ہماچل پردیش کے انچارج مقرر کئے گئے تھے۔ ان کی قیادت میں بی جے پی جب ریاست میں ہار گئی تو ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا، لیکن ان کا ستارہ اس وقت چمکا جب انھیں دہلی سے اٹھاکر ارون جیٹلی ہوائی جہاز سے احمد آباد لے گئے اور کیشو بھائی پٹیل کی جگہ نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ بات 2001ء کی ہے۔ 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں میں مودی ہیرو بن کر ابھرے۔ 2014ء تک مسلسل گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اور 2014ء ہی میں کانگریسی حکومت کی کمزوری اور کرپشن کی وجہ سے مودی جی ملک کے وزیر اعظم بنے۔ اس طرح انھیں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور اپوزیشن کیا چیز ہوتی ہے اس سے وہ بہت حد تک ناواقف ہیں۔ اس لئے وہ پاور سے یا اقتدار سے اپنے آپ کو ایک منٹ کے لئے الگ ہونا نہیں چاہتے۔
2013ء میں گجرات کے شہر بھروچ کے ایک کالج میں 15 اگست کو لکڑی کا لال قلعہ نریندر مودی نے بنوایا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی لال قلعہ کی تقریر کے فوراً بعد نریندر مودی لکڑی کے لال قلعہ سے وزیر اعظم من موہن سنگھ ، ان کی حکومت اور گاندھی فیملی پر بہت ہی زور دار طریقے سے گرجے اور برسے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کمزور تھی اور کچھ وزراء کرپشن میں ملوث تھے جس کی وجہ سے انھوں نے تقریر میں کہاکہ من موہن سنگھ کی حکومت اس قدر کرپشن میں مبتلا ہے کہ زیرو زیرو لکھا جائے تو 10جن پتھ آجائے۔ اس تقریر کا ملک بھر میں اثر ہوا تھا۔ لال قلعہ در اصل پاور یا اقتدار کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی لال قلعہ سے تیسری، چوتھی اوربلکہ زندگی بھر تقریر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور اپنے دور کو ’امرت کال‘ بتا رہے ہیں۔ ان کے پرستاروں میں فلمی اور غیر فلمی دونوں پائے جاتے ہیں۔ ایک فلمی ایکٹریس کنگنا رناوت نے جوش و جذبے میں آکر کہا تھا کہ ’’ہندستان 2014ء سے آزاد ہوا ہے‘‘۔ مودی جی کے دیگر پرستار بھی اس طرح کی ملتی جلتی باتیں کنگنا رناوت کے بیان کے بعد کہنے لگے۔ مودی جی اپنے دور کو امرت کال کا دور کہتے ہیں۔ در اصل وہ بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ 2014ء سے ملک کو آزادی ملی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بھی بی جے پی کی حکومت تھی ، مودی جی اس کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ’ہم چنیں دیگرے نیست‘ کے خول میں بند نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ تعریف بٹورنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا ان کی شخصیت کی سب سے بڑی بیماری ہے۔
لال قلعہ سے ہر وزیر اعظم کی تقریر ملک کی ترجمانی کرتی تھی اور ملک کے موجودہ حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی۔ دنیا بھر کے ممالک اس تقریر پر اپنی توجہ مبذول کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بہت دور ہٹ کر نریندر مودی کی تقریر تھی۔ پوری تقریر ہندستان کے ایک وزیر اعظم کی تقریر کے بجائے ایک سیاسی لیڈر کی ایک سیاسی جلسہ میں ایک انتخابی تقریر تھی۔ 2024ء کو بھی کبھی تو وہ نظر انداز کر رہے تھے اور کبھی 2024ء کا الیکشن ان کے رگ وریشے میں نظر آرہا تھا۔ اور پنی ہر بات کو 2024ء سے جوڑتے تھے ۔ پارلیمنٹ میں بھی انھوں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن پارٹیاں 2028ء میں پھر عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گی۔ در اصل یہ بتانا تھا کہ وزیر اعظم وہی ہوں گے اور اپوزیشن پارٹیاں بھی یہی ہوں گی۔ یہ پیشین گوئیاں کر رہے تھے۔ لال قلعہ سے کچھ زیادہ ہی یہ پیشین گوئیاں کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ ان کے امرت کال کا اثر ایک ہزار سال تک رہے گا اور 2047ء میں ہندستان معاشی لحاظ سے دنیا میں تیسرے پائیدان پر ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ان کا یہ کہنا تھا کہ 2047ء تک ان کو وزیر اعظم رہنے دیا جائے تو ہندستان کا نقشہ بالکل بدل جائے گا اور ہندستان تیسری بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔ اگر ان کو ووٹ نہیں دیا گیا تو ہندستان پھر پیچھے کی طرف چلا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی جی محسوس کر رہے ہیں کہ زمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے۔ 2019ء میں مغربی بنگال، بہار، مہاراشٹر، کرناٹک سے بی جے پی کو 158 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ’اسمال باکس‘ سروے کے مطابق ان میں سے ان ریاستوں میں 75سیٹوں پر بی جے پی ہارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ راجستھان میں کہا جاتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی میں برابر کا ٹکر ہے لیکن بی جے پی کے اندر آپسی لڑائی سے بی جے پی کانگریس کے مقابلے میں راجستھان میں کمزور نظر آرہی ہے۔ انتخاب کی تیاری کے لئے مودی کے اشارے پر بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے بی جے پی کی دو کمیٹیاں تشکیل کی ہیں۔ ان دونوں کمیٹیوں میں وسندھرا راجے کو جو بی جے پی کی راجستھان میں سب سے مضبوط اور مقبول لیڈر ہیں ان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی-شاہ کی جوڑی سابق وزیر اعلیٰ راجستھان وسندھرا راجے کو سیاسی منظر سے ہٹانا چاہتی ہے اور مودی کے چہرے پر الیکشن لڑنے کی تیاری ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی شیو راج سنگھ چوہان کو بھی امیت شاہ کی جوڑی نظر انداز کر رہی ہے۔ گزشتہ روز (20اگست) مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ مدھیہ پردیش میں مودی کی سربراہی میں حکومت الیکشن لڑے گی اور اقتدار میں واپس آئے گی۔ یہاں بھی موجودہ وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو وسندھرا راجے کی طرح حاشیئے پر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کانگریس مدھیہ پردیش میں مضبوط نظر آرہی ہے اور بدعنوانی کے موضوع کو جس طرح اجاگر کر رہی ہے اس سے بی جے پی کی حکومت پریشان ہے۔ 50% رشوت کی بات حکومت کے ہر شعبے میں کانگریس بطور ثبوت پیش کر رہی ہے۔ اس سے بھی حکومت کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ پرینکا گاندھی کے خلاف 50تھانوں میں ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پرینکا گاندھی کو گرفتار کریں یا نہ کریں۔ پرینکا گاندھی بھی مدھیہ پردیش میں موجودہ حکومت سے لڑنے بھڑنے کے لئے تیار ہیں۔ جیوترا دتیہ سندھیا کی رہنمائی میں جو لوگ بی جے پی میں شامل ہوئے تھے وہ ایک ایک کرکے کانگریس جوائن کر رہے ہیں۔ چند دنوں پہلے سندھیا کے بہت قریبی وفادار سمندر پٹیل 800 گاڑیوں کا قافلہ لے کر مدھیہ پردیش کانگریس کے ہیڈکوارٹر کانگریس میں شامل ہونے کے لئے پہنچے۔ الیکشن کے اعلان سے پہلے ہی بی جے پی نے گھبراہٹ میں اپنے 40 امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی کچھ لوگ بی جے پی سے کٹ کر کانگریس میں شامل ہورہے ہیں کیونکہ سندھیا کے وفاداروں کو ٹکٹ نہیں دیا جارہا ہے۔ یہ حال ہے بی جے پی کا مدھیہ پردیش میں۔
راجستھان اور مدھیہ پردیش سے بری حالت چھتیس گڑھ کی ہے جہاں کانگریسی حکومت سے پہلے رمن سنگھ 15 سال تک چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اب ان کا چھتیس گڑھ میں چرچا بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو قیادت کا بحران ہے۔ کوئی بھی بی جے پی میں لیڈر ایسا نہیں نظر نہیں آتا جو وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے مقابلے کا ہو۔ حال ہی میں ’اے بی پی سی ووٹر‘ کے ذریعے اوپنین پول کے ذریعے کنڈکٹ ہوا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل وزیر اعلیٰ کے لئے سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کو رمن سنگھ سے 25% زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ اوپنین پول میں 48% لوگوں نے وزیر اعلیٰ کے لئے بھوپیش بگھیل کی حمایت کی ہے جبکہ صرف 23%لوگوں نے رمن سنگھ کا سپورٹ کیا ہے۔ چھتیس گڑھ کے نائب وزیر اعلیٰ ٹی ایس سنگھ دیو کو 19%لوگوں نے پسند کیا ہے۔ یہ ہے موجودہ کہانی تین ریاستوں کی جہاں دسمبر کے مہینے میں الیکشن ہوسکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا عام خیال ہے کہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی بری طرح ہار سکتی ہے۔
خواہ مذکورہ چار ریاستوں کا سروے ہو یا تین ریاستوں میں ہونے والے الیکشن کا اوپنین پول ہو، تینوں چاروں جگہوں میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ یہ ساری خبریں وزیر اعظم نریندر مودی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے لال قلعہ سے یا لوک سبھا سے مودی جی کو بار بار اپنے آپ کو یا اپنے لوگوں کو یقین دہانی کرنی پڑ رہی ہے کہ ’’میں پھر آرہا ہوں‘‘۔ ہارنے والے کو ہمیشہ بار بار اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ وہ جیت رہا ہے۔ اس وقت نریندر مودی اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ ہار گئے تو ان کا کیا ہوگا اور ان کے ساتھ آنے والی حکومت کیا سلوک کرے گی؟ مودی جی کو زندگی کی یہ آواز سننی چاہئے ؎
’انا کی بھینٹ چڑھا دے مگر یہ دھیان رہے – میں زندگی ہوں، فقط ایک بار دی گئی ہوں‘
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment