’امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے‘

’امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے‘
’امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے‘
عبدالعزیز
آج سے تقریباً 137سال پہلے مولانا الطاف حسین حالیؒ نے ایک نظم ’’مسدس حالی‘‘ لکھی جو مسلمانوں کیلئے ایک آئینہ کے مانند ہے۔ ایک ڈیڑھ صدی کا زمانہ کتنی مدت کا زمانہ ہوتا ہے۔ بہت کچھ  مٹ جاتا ہے اور بہت کچھ نمودار ہوتا ہے۔ بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے مگر مولانا نے جو آئینہ مسلمانوں کو دکھایا آج بھی صحیح و سالم ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 137 سال پہلے کا آئینہ نہیں ہے بلکہ وہ آئینہ آج تیار کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کی حالت کی عکاسی کی گئی ہے۔ سرسید احمد خان کے پاس جب یہ نظم پڑھنے کیلئے دی گئی تو ایک ہی بیٹھک میں شروع سے آخر تک پڑھ ڈالی۔ پڑھنے کے بعد جو خط مولانا کو لکھا وہ ایک یاد گاری چیز ہے۔ اس کا ایک فقرہ اس عجیب وغریب اور گہرے اثر کی تراوش ہے جو اس نظم کو پڑھنے سے سرسید کے دل پر ہوا۔ 
’’جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا، میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں‘‘۔ 
افسوس کہ حالی، اقبال، سرسید، ڈپٹی نذیر، شبلی، اکبر، سید مودودی وغیرہ سب امت مرحوم کو آئینہ دکھاتے رہے اور اسی طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی شاعروں، ادیبوں اور مصلحین امت نے آئینہ دکھانے کی کوشش کی مگر حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں پیدا ہوئی۔ مسدس حالی کو شروع سے آخر تک پڑھ ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے آج کے حالات کی تصویر کشی کی ہے۔ آج جو دور یا وقت آیا ہے وہ امت پر سب سے مشکل ترین وقت ہے۔ کوئی راستہ، کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ دشمنوں نے سارے راستے بند کر دیئے۔ کمزور امت، زوال پذیر امت کراہ رہی ہے۔ جبر و ظلم اس کا مقدر بن گیا ہے۔ آپسی جنگ و جدل نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ مسلکوں کے جھگڑے، تنازعے سب کچھ ختم ہوجانے کے باوجود اسی طرح زندہ ہیں جیسے پہلے زندہ تھے۔ اسلام سے قبل جو جہالت عربوں میں تھی وہ لوٹ آئی ہے۔ عرب ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کشی پر آمادہ ہیں  اور جو لوگ جھپٹ رہے ہیں یا حملے کر رہے ہیں انھیں خود اہل عرب راستے دکھا رہے ہیں۔ شیعہ-سنی کے جھگڑے عروج پر ہیں۔ فقہی موشگافیاں دلوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی غیروں کی چالیں، پسندیدہ اور محبوب ہوگئی ہیں۔ تحریک اسلامی جو پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک امید تھی، غیروں سے زیادہ اپنے اس کے دشمن بن گئے ہیں۔ فرعون مصر زندہ ہوگیا۔ موسیٰؑ اس کے پیروؤں پر ظلم و جبر کی وہ بارش برسا رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مصر سے جو اسلامی قیادت ابھری تھی جس میں اعتدال و توازن تھا اس کو سارے عربوں نے مل کرکمر توڑ دی ہے۔ 
جس وقت مولانا حالیؒ نے اپنی شہرہ آفاق نظم لکھی معلوم ہوتا ہے کہ کم و بیش یہی حالت تھی جو آج ہے۔ نظم کے آخر میں مولانا نے عرض حال دعا کے پیرایہ میں بیان کیا ہے جو آج بھی پڑھنے اور سننے کے لائق ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں، پڑھیں اور سمجھیں تو بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں آج بھی وہی درد، خلوص او سچ ہے جو کل تھا۔ امید ہے درد پھیلے اور سچ چمکے گا۔ 
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے 
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے 
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے 
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے 
جس دن کے مدعو تھے کبھی سیزر و کسریٰ 
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے 
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں 
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے 
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں 
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے 
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے 
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے 
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے 
اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے 
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا 
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے 
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر غنا بھی 
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے 
جو دین کہ گودوں میں پلا تھا حکما کی 
وہ عرضہ تیغ جہلا و سفہا ہے 
جس دین کی محبت سے سب ادیان تھے مغلوب 
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے 
ہے دین ترا اب بھی وہی چشمہ صافی 
دین داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے 
عالم ہے سو بے عقل ہے جاہل ہے سو وحشی 
منعم ہے سو مغرور ہے مفلس سو گدا ہے 
یاں راگ ہے دن رات تو واں رنگ شب و روز 
یہ مجلس اعیاں ہے وہ بزم شرفا ہے 
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں 
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے 
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے 
اک دین ہے باقی سو بے برگ و نوا ہے 
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق 
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے 
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور 
زیور ہے اگر علم تو مال اس کی جلا ہے 
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت 
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے 
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی 
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے 
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر 
مدت سے اسے دور زماں میٹ رہا ہے 
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبد اقبال 
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے 
بیڑا تھا نہ جو باد مخالف سے خبردار 
جو چلتی ہے اب خلاف اس کے ہوا ہے 
وہ روشنی بام و در کشور اسلام 
یاد آج تلک جس کی زمانے کی ضیا ہے 
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج 
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے 
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہر سو 
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزم عزا ہے 
چاوَش تھے للکارتے جن رہگذروں میں 
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے 
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بفلک تھی 
وہ یاد میں اسلاف کے اب رو بقضا ہے 
جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی 
اب علم کا واس نام نہ حکمت کا پتا ہے 
کھوج ان کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا 
گم دشت میں اک قافلہ بے طبل و درا ہے 
بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی 
ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکم قضا ہے 
تھی آس تو تھا خوف بھی ہمراہ رجا کے 
اب خوف ہے مدت سے دلوں میں نہ رجا ہے 
جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت 
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلا ہے
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت 
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے 
کی زیب بدن سب نے ہی پوشاک کتاں کی 
اور برف میں ڈوبی ہوئی کشور کی ہوا ہے 
درکار ہیں یاں معرکے میں جوشن و خفتاں 
اور دوش پہ یاروں کے وہی کہنہ سوا ہے 
دریائے پر آشوب ہے اک راہ میں حائل 
اور بیٹھ کے گھوڑ نالو پہ یاں قصد ثنا ہے 
ملتی نہیں اک بوند بھی پانی کی جہاں مفت 
واں قافلہ سب گھر سے تہی دست چلا ہے 
یاں نکلے ہیں سودے کہ درم لے کے پرانے 
اور سکہ رواں شہر میں مدت سے نیا ہے 
فریاد ہے اک کشتی امت کے نگہباں 
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے 
اے چشمہ رحمت بابی انت و امن 
دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے 
جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایا 
جب تونے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہے 
صدمہ در دنداں کو ترے جس نے کہ پہنچایا 
کی ان کے لئے تو نے بھلائی کی دعا 
کی تونے خطا عفو ہے ان کینہ کیشوں کی 
کھانے میں جنھوں نے کہ تجھے زہر دیا ہے 
سو بار ترا دیکھ کے عفو اور ترحم 
ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے 
جو بے ادبی کرتے تھے اشعار میں تیری 
منقول انہی سے تری پھر مدح و ثنا ہے 
برتاؤ ترے جب کہ یہ اعدا سے ہیں اپنے 
اعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہے 
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں 
خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے گھرا ہے 
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن 
دلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے 
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدہ میں ہمارے 
وہ تیری محبت تری عزت کی ولا ہے 
ہر چپقلش دہر مخالف میں ترا نام 
ہتھیار جوانوں کا ہے پیروں کا عصا ہے 
جو خاک ترے در پہ ہے جاروب سے اڑتی 
وہ خاک ہمارے لئے داروئے شفا ہے 
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف 
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے 
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت 
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے 
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا 
اب تک تو ترے نام پہ اک اک فدا ہے 
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے 
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے 
گر بد ہیں تو حق اپنا ہے کچھ تجھ پہ زیادہ 
اخبار الطلح لی ہم نے سنا ہے 
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی 
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے 
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں 
پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے 
گر دین کو جوکھوں نہیں ذلت سے ہماری 
امت تری ہر حال میں رضا بہ رضا ہے 
عزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریں 
اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہے 
ہاں حالیؔ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے 
باتوں ٹپکتا تری اب صاف گلہ ہے 
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب 
یاں جنبش لب خارج از آہنگ خطا ہے
موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com      
We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment