جماعت اسلامی ہند کا آئندہ چار سالہ منصوبہ

ملکمیں طبقا تی ہم آہنگی اور سب کے لیے مساوی مواقع پیدا کرنا جماعت کی ترجیحات کا حصہ: امیر جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی: ” ملک میں رائے عامہ میں مثبت تبدیلی لانا اور اسلام اور اسلامی تعلیمات کے تئیں برادران وطن میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ،انہیں دور کرنا اور اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر ان تک پہنچانا، سب کو تعلیم کے مساوی مواقع  اور انصاف ملے جیسے ایشوز جماعت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ “۔ یہ باتیں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے مرکز میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہی۔ وہ  رواں میقات ( 2023 تا 2027 ) کے آئندہ چار سالہ منصوبے پر میڈیا سے بات کررہے تھے ۔  انہوں نے کہا کہ ” اسلام کی تعلیمات کسی خاص فرقے یا کمیونٹی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود، دنیوی فلاح اور اخروی نجات ان تعلیمات کی نمایاں خصوصیت ہے۔ جماعت چاہتی ہے کہ ملک کے تمام لوگوں کے سامنے یہ بات واضح ہو اور مختلف مذہبی طبقات کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔ ڈائیلاگ اور گفت و شنید کی فضا پیدا ہو۔ نفرتیں ختم ہوں۔ اس کے لیے ملک گیر سطح پر بھی اور ریاستوں اور یونٹوں کی سطح پر بھی سرگرمیاں انجام دی جائیں گی اور سب کی بھلائی اور عدل و انصاف کے لیے مل جل کر کام کرنے کی فضا پروان چڑھائی جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں پائی جانے والی عام خرابیوں مثلاً اونچ نیچ، عصبیت، لڑکیوں اورخواتین کی حق تلفی، جنین کشی، جہیز، منشیات، کرپشن وغیرہ کے خلاف مسلسل مہمات چلائی جاتی رہیں گی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” ماحولیاتی بحران کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر واضح کیا جائے گا اورماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف شہروں میں مختلف النوع خصوصی اقدامات کیے جائیں گے، اورمسلم ملت کے اندر ریفارمس کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے گی۔ خاص طور پر نکاح آسان ہو، جہیز وغیرہ کی رسم ختم ہو، وراثت میں خواتین کو حصہ دیا جائے، خواتین کے حقوق ادا کیے جائیں، تجارت اور مالی معاملات میں ایمان داری ہو، صفائی ستھرائی ہو، مسلم و غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو، اس طرح کی اسلامی تعلیمات کو نمایاں کیا جائے گا”۔انہوں نے کہا کہ ”  

جماعت نے طئے کیا ہے کہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ نظام تعلیم کسی مخصوص تہذیب کے تسلط سے پاک اور شمولیاتی ہو، نظام تعلیم اخلاقی قدروں پر مبنی ہو اور تعلیم عام اور تمام شہریوں کے لیے آسانی سے قابل حصول ہو، یہ تعلیم کے سلسلے میں جماعت کی تین اہم ترجیحات ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو بھی متوجہ کرنے کی مسلسل کوشش ہوتی رہے گی اور ان مقاصد کے لیے جماعت کی شاخیں بھی ممکنہ کوشش کریں گی۔ جماعت کی کوشش ہوگی کہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں میں تعلیم کا تناسب بڑھے۔ خواندگی کی شرح اور جی ای آر بڑھے اور ان کے تعلیمی مسائل حل ہوں۔ ملک کے کئی خطوں میں نئے تعلیمی اداروں کا قیام بھی اس منصوبے کا اہم جز ہے۔

مسلم ملت اور دیگر پسماندہ گروہوں کو معاشی میدان اور دیگر میدانوں میں آگے بڑھانا بھی جماعت کے منصوبے کا اہم حصہ ہوگا۔ مائکرو فینانس کو ایک تحریک بنا دینے اور غریب لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بغیر سود کے قرضے فراہم کرنا، اس کے لیے ادارے قائم کرنا، یہ بھی منصوبے کا اہم جز ہے۔ یہ بھی طئے کیا گیا ہے کہ خدمت خلق کے مختلف کام جو جماعت کررہی ہے ان کے ساتھ ساتھ اس دفعہ صحت عامہ اور میڈیکل کے میدان مین خصوصی کوششیں کی جائیں گی۔ علاج معالجے کے سلسلے میں بروقت رہنمائی اور علاج کے نام پر استحصال سے لوگوں کو بچانے کے لیے خصوصی سیل تمام بڑے شہروں میں قائم کیے جائیں گے۔

اوقافی جائدادوں کی بازیابی، ترقی  اور ان کی آمدنی کے صحیح استعمال کے سلسلےمیں حکومت ، متولیان  اور عوام کو اپنی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا جائے گا اور اس کے لیے بھی خصوصی سیل قائم کیے جائیں گے۔

جماعت کی کوششوں کا ایک اہم ہدف یہ ہوگا کہ ملک کے تمام انصاف پسند افراد اور طبقات کے ساتھ مل کر ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف کے لیے کوشش کی جائے اور ہر طرح کے ظلم ، ناانصافی، فتنہ و فساد، نفرت و تفریق اور خوف و دہشت کے خلاف اس طرح کی جدوجہد کی جائے کہ ان برائیوں سے ہمارا سماج پاک ہو۔

کانفرنس میں نائب امراء ، قیم جماعت کے علاوہ بڑی تعداد میں صحافیوں نے شرکت کی۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment