یہ بل بغیر کسی الزام کے حراست کی مدت کو 15 دن سے بڑھا کر 90 دن کردے گا:جماعت اسلامی ہند

Jamaat-e-Islami Hind expresses concern over rising incidents of Islamophobia in Indian educational institutions

نئی دہلی:  آج جماعت اسلامی ہند کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی، میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل اور ‘انڈیا ٹومارو’ کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے شرکت کی۔ شرکاء نے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے ملک کے کچھ اہم موضوعات پر بات کی۔ جن میں منی پور کا غیر حل شدہ بحران ،  نئے فوجداری قوانین، نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل ، تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا ، نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اور ہماچل ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات شامل تھے۔ مجموعی طور پر جو باتیں کہی گئیں ان کا لب لبا ب حسب ذیل ہے:

منی پور کا غیر حل شدہ بحران:

ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے منی پور کا دورہ کیا۔ اس وفد میں جماعت کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی اور عبد الحلیم  پھندریمیم شامل تھے۔ وفد نے وہاں جن حقائق کی معلومات حاصل کی، وہ درج  ذیل ہیں:  منی پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 65 ہزار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں  جن میں 14 ہزار بچے ہیں۔ ان  میں سے اکثر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ تشدد کے دوران 198 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئی۔ جہاں تک معاشی نقصان کی بات ہے توفی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وفد نے محسوس کیا کہ ریاست کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ وادی کے لوگ پہاڑی علاقوں میں نہیں جاسکتے اور نہ ہی پہاڑی لوگ وادی میں۔ فسادیوں نے مکانات اور کاروباری اداروں کو نسلی بنیاد پر کہیں جزوی تو کہیں مکمل طور پر نقصان پہنچایا ہے۔

منی پور میں پھوٹنے والا پرتشدد فساد کا ہنوز کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ وزیر اعظم نے ابھی تک ریاست کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سلگتے ہوئے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہے۔ یہ تمام المناک واقعات 3 مئی کو چورا چند پور کی ریلی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے۔ یہاں ضلع تھوبل میں 4 مئی کو قبائلی خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے کا ایک دل دہلادینے والا واقعہ ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا۔اس واقعہ کا سپریم کورٹ آف انڈیا نے از خود نوٹس لیا اور مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ وہ یا تو مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں یا ایک طرف ہٹ جائیں اورعدلیہ کو کارروائی کرنے کی اجازت دیں۔ عدالت کے اس سخت رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت، ریاست میں حالات کو معمول پر لانے میں ناکام رہی۔ میڈیا نے وہاں کی صورتحال پر مسلسل اپنی توجہ مرکوز رکھی جس کے نتیجے میں حکومت کوگنہگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کرنا پڑا۔ بہر کیف مہینوں سے جاری اس تشدد نے ریاست کی دو کمیونٹی ’میتئی‘ اور’کوکی‘کے بیچ تقسیم کی ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے۔ جب ریاست میں پیدا شدہ صورتحال پر کافی ہنگامہ ہوا  تب جاکر مئی کے آخر میں وزیر داخلہ نے مذکورہ ریاست کا دورہ کیا۔ ان کے دورہ کے باوجود بے گھر افراد کی آباد کاری  یا نسلی کشیدگی کو کم کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور تشدد کے چھٹ پٹ واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ منی پور کے وزیر اعلیٰ نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں یا جو بیانات دیئے ہیں، یہ اشارہ ہے کہ وہ ’شناخت پر مبنی سیاست‘سے بالاتر ہونے میں نااہل ثابت ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت کی اس نااہلی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو مداخلت کرنی چاہئے اور مختلف طبقات کے سول سوسائٹی کے نمائندوں کو باہمی مفاہمت اور امن کی کوششیں شروع کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔

نئے فوجداری قوانین:

حکومت نے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کئے ہیں جن کا مقصد فوجداری نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تینوں بل آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان بلوں کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ یہ ترامیم نظامِ عدل اور عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عوامی آراء اور ان کے رجحانات کو معلوم کئے بغیر جلد بازی میں کی گئی اس طرح کی تبدیلیوں سے قانونی فریم ورک میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانونی پیشہ ور افراد اور عوام کے لئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس بل میں ہجومی تشدد کے جرم پر سزائے موت کے علاوہ 7 سال قید یاعمر قید متعارف کرائی گئی ہے۔ اس نئے قوانین سے جڑے کچھ مخصوص خدشات ہیں:

(1)          بھارتیہ نیائے سنہتا بل:  اس بل کا مقصد 1860 کی موجودہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ بل 175 سیکشنز میں ترمیم، 8 نئے سیکشنز کا اضافہ اور 22 سیکشنز کو منسوخ کرے گا۔  اس کے علاوہ یہ بل بغیر کسی الزام کے حراست کی مدت کو 15 دن سے بڑھا کر 90 دن کردے گا۔ اس میں  پولیس کو’ہتھکڑی لگانے کا حق‘  صوابدید کی بنیاد پردیا گیا  ہے۔ چیپٹر 7 ریاست کے خلاف جرائم کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ ایسی نئی دفعات ہیں جو گرفتاریوں کے دوران انکاؤنٹر اور تشدد کا راستہ کھولتی ہیں۔ان نئے بلوں میں بغاوت، تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی جیسے جرائم  کے تعارف میں مبہم انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کا تعارف قانونی تشریحات میں ابہام کا باعث بن سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اس کا غلط استعمال کئے جانے کے سبب انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔  اس بل میں ’لو جہاد‘ کی ایک شق ہے جس کی تعریف ”شادی سے پہلے اپنی شناخت چھپانا“ کے طور پر کی گئی ہے۔ اسے الگ جرم بنا کر 10 سال کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ’لو جہاد‘  مسلمانوں کے لئے ایک تکلیف دہ  لفظ ہے۔ یہ لفظ اسلام کے ایک اہم اصول کی تضحیک کرتا ہے۔ اسے سماج دشمن عناصر کی طرف سے اختراع کیا گیا ہے، لہٰذاہمارے آئین میں اسے ’لیگل پروویژن‘ کے طور پر شامل نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ یہ پروویژن مسلمانوں کو  ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

(2)          بھارتیہ ناگرک سرکشا  سنہتا  بل:   یہ بل  1973 کے موجودہ ’کوڈ آف کریمنل پروسیجر‘ (سی آر پی سی) کو منسوخ کردے گا۔ گرچہ اس میں کوڈ کی بیشتر دفعات کو برقرار رکھا گیا ہے، مگر کچھ بڑی تبدیلیاں شامل کی گئی ہیں جیسے مختلف ایکٹ کے تحت جرائم کے لئے گرفتاری، استغاثہ اور ضمانت کا طریقہ کار۔ قابل ذکر ہے کہ اس طرح  بنیادی قانونی اصولوں کو برقرار رکھے بغیر کچھ حصوں کو منسوخ کردینے سے خدشات جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے قانونی عمل میں خلل پڑسکتا ہے۔

(3)          بھارتیہ شاکشیہ بل:   اس بل کا مقصد 1872 کے’انڈین ایویڈینس ایکٹ‘ کو تبدیل کرنا ہے۔ اس عمل کا مقصد ہے ان قوانین کو جدید اور عصری قانونی صورت حال سے ہم آہنگ کرنا۔ یہ بل الیکٹرانک یا ڈیجیٹل ریکارڈز کو بطور ثبوت تسلیم کرتا ہے اور اسے وہی حیثیت دیتا ہے جو ایک کاغذی ریکارڈ کی ہوتی ہے۔ یہ بل الیکٹرانک ریکارڈز کے مفہوم کو وسیع تر کرکے پیش کرتا ہے جس میں سیمی کنڈکٹر آلات اور اسمارٹ فون و لیپ ٹاپ جیسے گجٹس میں محفوظ کئے گئے لوکیشنل ایویڈینس اور وائس میل جیسی جانکاریاں شامل ہیں۔  اس توسیع سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے گناہ لوگوں کو پھنسانے اور ان پر ایسے جرائم کا الزام لگانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جن جرائم کو ملزم نے کیا ہی نہیں۔  ماضی میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ بے گناہ شہریوں کے خلاف جھوٹے ثبوت پیش کئے گئے۔ یہ بل مشترکہ ٹرائل کی اجازت دیتا ہے جس میں ایک ہی جرم کے لئے ایک سے زیادہ افراد پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ ٹرائل میں، اگر کسی ایک ملزم نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے تو اس اعتراف کو دونوں کے خلاف اعترافِ جرم تصور کیا جائے گا۔  اس میں کہا گیا ہے کہ متعدد افراد پر مقدمے کی سماعت میں جہاں ایک ملزم مفرور ہو یا وارنٹ گرفتاری کا جواب نہ دیا ہو تو اسے مشترکہ مقدمے کی طرح سمجھا جائے گا۔  اس تشریح سے قانون کے غلط استعمال کا شدید خدشہ ہے۔  جماعت کی رائے ہے کہ اگر چہ نیا بل آئی سی پی سی کی دفعہ 124 اے کو منسوخ کرتا ہے لیکن اس نے بغاوت کی کارروائیوں کو نئی شکل میں سزا دینے کا انتظام کیا ہے جو پرانے قانون کی طرح خطرناک ہے۔ بہتر ہوتا کہ آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ میں ترمیم کردی جاتی تاکہ مذکورہ بالا تینوں بلوں میں تبدیلیوں کی عکاسی کی جاسکے۔ فوجداری قوانین کو مکمل طور پر دوبارہ لکھ کر اصلاح کرنے کا خیال ہماری فوری ضرورت نہیں تھی۔اس پورے معاملے میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ان تین نئے قوانین کے مجوزہ نام ہندی میں ہیں جنہیں صرف 44 فیصد آبادی سمجھ پاتی ہے۔جکبہ ملک کے 56 فیصد لوگ غیر ہندی ہیں۔

جماعت اسلامی ہند نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر تشویش کا اظہار کرتی ہے:

’ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا  پروٹیکشن بل  2023‘، ایک ایسا بل ہے جس سے حکومت  کے ذریعہ کی جانے والی نگرانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بل کے بموجب شہریوں کے ڈیٹا کی رازداری سے سمجھوتہ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بل کمپنیوں کو کچھ صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو اب یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فرموں سے افراد کے ذاتی ڈیٹا  ان کی رضامندی کے بغیر حاصل کرے اور مرکزی حکومت  کے ذریعہ مقرر کردہ بورڈ  (ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ)  کے مشورے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں کے پوسٹ کردہ مواد کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کرے۔جبکہ ایسا کرنا ملک کے باشندوں کی شہری آزادی کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کمزور ہوگی۔  یہ بل حکومتی اداروں کو تحقیقات اور ریاستی تحفظ کے نام پر ”ڈیٹا پروٹیکشن پروویژن آف لاء“ سے مستثنیٰ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔  استثنیٰ کئے جانے کا یہ دائرہ  ’آر ٹی ای‘  کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنے گا  جبکہ ”آر ٹی ای“  قانون کے تحت شہریوں کو سرکاری افسران سے ڈیٹا حاصل کرنے کا پورا حق دیا گیا ہے۔

ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا:

جماعت اسلامی ہند ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی حالیہ مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباء سے پٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔  اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔  اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔  جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پرفائز افراد کے ذریعہ اپنائی گئی خاموشی کی پالیسی، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے خلاف بولنے سے بچنے کا رویہ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر عدم تحمل اور پولرائزیشن کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔  جماعت چاہتی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں،  اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو ایک سماجی برائی مان کر اس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین تیار کرے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اکثریتی برادری میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوششیں کریں،  اس سلسلے میں میڈیا  اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس

جماعت اسلامی ہند ستمبر 2023 میں نئی دہلی میں جی 20 کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وفود کا خیر مقدم کرتی ہے۔  اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا ہم سب ہندوستانیوں کے لئے شان اورفخر کی بات ہے۔ اس سربراہی اجلاس کے’لوگو‘  میں ہندوستانی ثقافت کا مشہور نعرہ ”واسو دھیوا کٹمبکم“ کے علاوہ  ’ایک زمین، ’ایک  خاندان‘،  ’ایک مستقبل“ کی درجہ بندی، کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔  جی 20 کی میزبانی کرنے سے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرو رسوخ، آب و ہوا کی کارروائی کے لئے اس کی مضبوط وکالت، اس کی اسٹریٹجک اہمیت، عالمی صحت کی دیکھ بھال میں اس کا کردار اور گلوبل ساؤتھ کی آواز بننے کو نمایاں کرتا ہے۔ تاہم کچھ اہم  انڈیکس جو عالمی سطح پر ہماری سماجی و اقتصادی درجہ بندی کا تعین کرتے ہیں، بہت خراب ہے۔ لہٰذا ہمیں مختلف انڈیکس جیسے ڈیموکریسی انڈیکس، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس، گلوبل ہنگر انڈیکس، گلوبل فوڈ سیکورٹی انڈیکس، ہیومن فریڈم انڈیکس، ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس، کرپشن پرسیپشن انڈیکس، ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس، وغیرہ میں اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ حکومت ہماری دولت میں عدم مساوات کو کم کرنے، مذہبی اقلیتوں کے تحفظ و صحت عامہ اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرے۔

ہماچل ماحولیاتی تباہی:

حالیہ مانسون کے موسم میں ہماچل پردیش میں تباہ کن سیلاب آیا جس کی وجہ سے جانوں اور اثاثوں کا کافی نقصان ہوا۔ آئی پی سی سی (vi) رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں ہمالیہ اور ہندوستان کے ساحلی علاقے ہیں۔ ہمالیہ پر تیز بارش نے سیلاب کی شکل لے لی جس کا منفی اثر معیشت پر پڑا جس سے ترقی، قدرتی وسائل، جنگلات، پانی، سیاحت اور سیمنٹ کی پیداوار متاثر ہوئے۔ یہ سب غیر منظم تعمیرات، پہاڑی دریاؤں کا راستہ کم کردینے اور ماحولیاتی نقصان پہنچانے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔سیاحت کو فروغ دینے کے لئے سڑکوں کی توسیع کرنے میں ارضیاتی حدود کو نظر انداز کیا جانا، بارش کے دوران لینڈ سلائیڈنگ اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔ بڑے بڑے سیمنٹ پلانٹس کے قیام نے خطے کی صورت کو بدل کر رکھ دیا، پانی کو جذب کرنے کی اس کی صلاحیت کم ہوگئی، نتیجتاً سیلاب میں اضافہ ہونے لگا۔ کسان روایتی اناج کی کاشتکاری کی جگہ ایسی فصلیں اگانے لگے جس سے نقد قیمت وصول ہوتی ہو۔ ایسی فصلیں اگانے کے لئے مناسب نکاسی کا انتظام کئے بغیر عجلت میں سڑکیں بنائی جانے لگیں جس سے دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ بڑھتی گئی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پالیسی کی خامیوں اور دیگر ماحولیاتی خدشات کو دور کرنے کے لئے ایک کمیشن آف انکوائری قائم کرے جس میں اہم اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ تاکہ موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی کرکے آفات کو روکنے اور بھاری بارش کے اثرات کو کم کرنے پر موثر اقدام کیا جاسکے۔  ہماچل پردیش کا یہ حالیہ سیلاب موسمیاتی تبدیلی اور انسانی ترقی کے خطرات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت جانوں اور وسائل کے تحفظ کے لئے ماحولیاتی تحفظ کو اولین ترجیحات میں رکھے۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment