منی پور: سچ کیا ہے؟

 

منی پور: سچ کیا ہے؟

ڈاکٹر سیدفاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔ فون:9395381226

منی پور واقعات نے ایک بار پھر ہندوستان کو عالمی سطح پر رسوا کیا۔ شمال مشرقی اس ریاست میں آخر یہ واقعات کیوں رونما ہورہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ سوشیل میڈیا پر کسی نے یہ انکشاف کیا کہ ان پُرتشدد واقعات کے پس پردہ ایسے محرکات ہیں‘ اگر وہ سچ ہیں تو ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور ارباب اقتدار سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ سوشیل میڈیا پوسٹ پر بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ ان فسادات کا مقصد آدی واسیوں کو اُن علاقوں سے تخلیہ کروانا ہے کیوں کہ اس علاقہ میں ارباب اقتدار کے اس قریبی ساتھی کو ایک پراجکٹ کے لئے بہت بڑی اراضی الاٹ کی گئی ہے جسے ایرپورٹس، بندرگاہوں اور ہر بڑا پراجکٹ دیا گیا ہے۔ اس بات پر اس لئے یقین ہوتا ہے کہ جہاں جہاں زمین کو حاصل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے‘ وہاں پُرتشدد واقعات کروائے جاتے ہیں۔ مکانات کو آگ لگادی جاتی ہے۔ فسادات میں قتل عام ہوتا ہے۔ لوگ اپنے ارکان خاندان کو بچانے کی خاطر اُن علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور اپنی بقیہ زندگی اور ان کی آنے والی نسلیں پناہ گزینوں کے طور پر زندگی گزارتی ہے۔ مائنامار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو مظالم ہوئے اس کا پس منظر بھی یہی ہے کہ روہنگیا علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور ان وسائل کو حاصل کرنے کے لئے اُن علاقوں سے وہاں کے مسلمانوں کا تخلیہ ضروری تھا۔ ارباب اقتدار حالات ایسے پیدا کرتے ہیں کہ دنیا سمجھتی ہے کہ یہ فسادات یا پُرتشدد واقعات فرقہ وارانہ نوعیت کے ہیں۔ اگر فرقہ وارانہ نوعیت کے نہ بھی ہوں تو اس طرح سے ماحول تیار کردیا جاتا ہے کہ صدیوں سے شیروشکر کی طرح مل جل کر رہنے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ مائنامار سے ہٹ کر اگر خلیجی ممالک کا جائزہ لیں گے تو تیل، گیاس اور دوسرے قدرتی وسائل سے مالا مال اِن ممالک کو آپس میں لڑاکر یا پھر خانہ جنگی جیسے حالات کرکے مغربی طاقتوں نے ان خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو سکیوریٹی فراہم کرنے کے بہانے اپنی قدم وہاں مضبوط کرلئے۔ اور آج ان کی مرضی کے بغیر کوئی مسلم ملک کوئی کام نہیں کرسکتا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، تیونس میں شورش پیدا کرکے اُسے بہارِ عرب کا نام دیا گیا۔ اور مغربی طاقتوں نے وہاں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔ آپس میں جنگ کی حالات پیدا کرکے انہیں وہ اپنے ہتھیار بھی فراہم کرتے ہیں۔ اور پھر تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے ٹھیکے بھی حاصل کرلیتے ہیں اور اقتدار کے شوقین یا لالچی حکمران اپنے اقتدار کے لئے ہر قسم کا سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔
جہاں تک منی پور کا تعلق ہے‘ یہ پہلے ایک رجواڑہ تھا۔ برطانوی حکومت کے دور میں 1917ء سے 1939ء کے درمیان یہاں جمہوری نظام کے لئے باغیانہ تحریکات چلائی گئیں۔ 1947جب ہندوستان آزاد ہوا اس کے بعد حالات بدل گئے تب سلطنت منی پور کے مہاراجا بدھاچندرا نے ایک معاہدہ کے تحت منی پور کے ہندوستان میں شامل کرنے سے اتفاق کیا چنانچہ 15/اکتوبر 1949ء کو منی پور مرکز کا زیر انتظام علاقہ بن گیا۔ اور 1972ء میں اسے ریاست کا درجہ دیا گیا۔
منی پور کے تین اہم قبائل ہیں‘ MEITIES (مائٹیز)، ناگا اور کوکی زو۔ اکثریتی آبادی مائتیز کی ہے جو ہندو ہے۔ یہ دو گروہوں میں تقسیم ہے‘ انہیں شکایت ہے کہ 1961ء میں مائتیز یا ہندو کی آبادی 61فیصد تھی جو 2011ء تک 41فیصد ہوگئی۔ دوسری طرف کوکیز یا عیسائیوں کی آبادی 19فیصد سے بڑھ کر 41فیصد ہوگئی۔ ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ مائتیز میں ہندو، عیسائی اور مسلمان تینوں شامل ہیں۔ مسلمانوں کو پنگال کہتے ہیں‘ پنگال دراصل مائتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسلمان کے ہے۔ اور مسلمان 17ویں صدی سے یہاں آباد ہیں۔ ان کی آبادی منی پور کی کل آبادی 12لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں مسلمان تین لاکھ کے قریب ہیں۔
ناگا اور کوکی پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اور مائتی پہاڑوں سے گھرے علاقے میں۔ ناگا باشندے ایک تمام پہاڑیوں پر مشتمل ایک گریٹر ناگالینڈ کا مطالبہ کررہے ہیں‘ جبکہ کوکی قبائل جو 33ذیلی قبائل پر مشتمل ہے‘ وہ منی پور پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ناگا اور مائتی دونوں ہی کوکی قبیلے کو پسند نہیں کرتے۔ اور انہیں بے دخل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ کوکی قبیلہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مائنامار (برما) سے غیرقانونی طور پر منی پور میں داخل ہوکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ ہندوستان اور مائنامار کی سرحد پر 1643کلو میٹر طویل باڑھ ہے جو اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور اور میزورم سے گزرتی ہے۔ کوکی قبائل منی پور پر واقع 398 کلو میٹر طویل باڑھ سے کسی طرح مائنامار سے منی پور میں داخل ہوجاتے ہیں۔ 22,23جولائی 2023ء میں مائنامار سے 718 ا فراد جن میں 301بچے اور 200 سے زائد خواتین ہیں‘ غیر قانونی طور پر منی پور میں داخل ہوئے ہیں جنہیں ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے کہ یہ لوگ کس طرح سے منی پور میں داخل ہوئے تھے۔
منی پور کے پس منظر کو بتاتے ہوئے ہم یہ بھی یاد کرتے چلیں کہ آخر تاریخ کے بدترین فسادات کیوں ہوئے؟ دراصل کوکی قبائل کو اقلیتی موقف حاصل ہے اور جن پہاڑی علاقوں پر وہ آباد ہیں وہاں دوسرے قبائل کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں۔ مارچ 2023ء میں ایک عدالت نے مائتی قبیلہ کو بھی کوکی قیبلہ کے مماثل شیڈول ٹرائب (درج فہرست قبیلہ) کا موقف دیااور پہاڑی علاقوں میں زمین خریدنے کی بھی اجازت دی جس سے کوکی قبیلے کو اندیشہ پیدا ہوا کہ اس سے اس کے روزگار چھین لئے جائیں گے اور ان کی زمینات سے انہیں بے دخل کردیا جائے گا۔طلبہ تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ منی پور کے دارالحکومت امپھال میں مائتی قبیلہ کے لوگوں نے کوکی قبیلہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔ عمل ردعمل کا سلسلہ جاری رہا۔ سپریم کورٹ نے مقامی عدالت کی رولنگ کے خلاف حکم التوا جاری کیا مگر دیر ہوچکی تھی۔ تشدد جو بھڑکا تو رکنے کا نام نہیں لیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق افواہ پھیلائی گئی کہ کوکی نوجوانوں نے مائتی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی۔ جوابی کاروائی ہوئی۔ حکومت اور پولیس کامائتی کے ساتھ نرم رویہ رہا۔جس کا فائدہ اس قدر اٹھایا گیا کہ سیکوریٹی فورسس سے 4ہزار سے زائد ہتھیار چھین لئے گئے۔ اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ایک دوسرے کے مکانات کو جلایا گیا۔ عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔250 کوکی گرجاگھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ اور پھر جب دو مہینے بعد ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دوخواتین کی برہنہ کرکے انہیں جلوس کے ساتھ پیدل چلنے کے لئے کہا گیا پھر ان کی آبروریزی کرکے قتل کیا گیا۔ اس ویڈیو نے پورے ملک میں تہلکہ مچادیا۔ اور سارا ملک مظلوموں کی تائید میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میزورم میں وہاں کے چیف منسٹر کی قیادت میں احتجاج کیا گیا۔چوں کہ منی پور کی ریاستی حکومت بی جے پی کی قیادت میں ایم پی پی، ناگا پیپلز فرنٹ اور لوک جن شکتی کے ساتھ منائی گئی ہے۔ اس لئے مرکز کی بی جے پی حکومت پر ہر گوشے سے انگلی اٹھائی گئی۔ حتیٰ کہ ایوان پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے تحریک اعتماد بھی پیش کی۔ 10برس میں پہلی بار وزیر اعظم مودی نے منی پور واقعہ پر زباں کھولی اور اس کی مذمت کی۔ تاہم ابھی تک بھی جس طرح سے حالات قابو میں آنے چاہئے تھے‘ نہیں آسکے۔ جس سے لاء اینڈ آرڈر پر حکومت کی کمزور گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔
منی پور کو ہندوستان کا نگینہ یا Jewel of Indiaکہا جاتا ہے۔ اپنی خوبصورت لینڈ اسکیپ کے لئے یہ مشہور ہے۔ افسوس کہ تین ماہ کے عرصہ میں یہ پوری طرح سے تباہ ہوچکا ہے۔ منی پور فٹبال کھلاڑیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ انٹرنیشنل اور نیشنل کھلاڑیوں کی یہ سرزمین ہے۔ جن کے گھر تباہ کردیئے گئے‘ جلادیئے گئے‘ لوٹ لئے گئے۔ مارچ ہی میں امپھال میں تین قومی فٹبال ٹورنمنٹ ہوا تھا۔ جس میں شاندار مظاہرہ کرنے والے ہندوستانی کھلاڑی جن کا تعلق منی پور سے چنگالیشنا سنگھ کونشم کو 8کروڑ کا نقصان ہوا۔ ان کے ارکان خاندان ہر شئے سے محروم ہوگئے۔ کھلاڑی منی پور سے ہمیشہ کے لئے بنگلور، جھارکھنڈ اور دوسری ریاستوں کو نقل مقام کرنے کیلئے مجبور ہیں۔
منی پور میں جس طرح سے خواتین کے ساتھ سلوک کیا گیا اس پر حیرت اور تعجب کم از کم ہمیں نہیں ہوتا‘ کیوں کہ گجرات 2002ء مظفرنگر 2012ء میں مسلمانوں کے ساتھ اس سے زیادہ بھیانک سلوک کیا گیا۔ 1990ء کے فسادات میں سورت اور احمدآباد میں سڑکوں پر مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی کرکے ان کی ویڈیو فلم بناکر پھیلادیا گیا تھا حالانکہ اس وقت انٹرنیٹ یا سوشیل میڈیا کا چلن نہیں تھا۔ اس بدترین واقعہ کے بعد گجرات میں طاعون (پلیگ)پھیل گیا تھا اور پورا ملک عالمی برادری کے لئے اچھوت بن گیا تھا۔ گجرات کے فسادات میں ایک بلقیس بانو کا واقعہ منظر عام پر آیا کتنی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ فرقہ پرست عناصر نے زیادتی کی اس کا کوئی حساب نہیں۔ مظفرنگر میں جب سماج وادی حکومت میں کس طرح سے مسلم اَن گنت خواتین کی آبروریزی کی گئی‘ جس کی رپورٹس انگریزی جرائد بشمول انڈیاٹوڈے میں شائع ہوئی۔
منی پور کا واقعہ یقینا بدبختانہ اور افسوسناک ہے۔ جس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ظلم کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ گجرات کی خواتین کی طرح جنہوں نے مسلمانوں کے جلتے گھروں کو بجھانے کے لئے جب پانی مانگا تو کیروسین دیا۔ خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نرم دل رکھتی ہیں‘ جب وہ سنگ دل بن جاتی ہے تو پھر مردوں کو ظلم کے لئے آمادہ کرتی ہے۔ کئی ایسی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی ہیں جس میں خواتین کو مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ ظلم کرتے دیکھا گیا۔ حتیٰ کہ یہ خواتین فوج اور سیکوریٹی فوج سے بھی مقابلہ کررہی ہیں اور اس ریاست میں امن و امان قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment