سیما حیدر اور جیوتی موریہ کا قضیہ محبت اور دُہرے پیمانے !!

سیما حیدر اور جیوتی موریہ کا قضیہ محبت اور دُہرے پیمانے !!

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

ان دنوں سوشل میڈیا سے لیکر چائے پان کی دکانوں تک دو عورتوں کا قضیہ محبت موضوع بحث بنا ہوا ہے۔دونوں خواتین کا ملک اور مذہب الگ الگ ہے لیکن “انداز محبت” تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔دونوں ہی خواتین شادہ شدہ اور بال بچوں والی ہیں۔اپنے پہلے شوہروں کے ساتھ دس سال سے زیادہ وقت گزار چکی ہیں۔شادی شدہ زندگی کے دس سال گزر جانے کے بعد دونوں ہی خواتین کی نگاہیں دوسرے مردوں سے لڑ گئیں۔اب اسے عشق کہیں یا کچھ اور، لیکن آج کل انہیں دو خواتین کے چرچے نیوز چینل/اخبار اور عام لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر میڈیا اور عوامی رائے میں جانب داری صاف صاف نظر آرہی ہے۔

___________کون ہیں یہ عورتیں؟

پہلی خاتون پاکستان کی سیما حیدر اور دوسری خاتون بھارت کے بنارس کی رہنے والی جیوتی موریہ ہیں۔سیما کے مطابق وہ معمولی سی پڑھی لکھی خاتون ہے جب کہ جیوتی موریہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہم حکومتی عہدے پر فائز خاتون ہیں اور موجودہ وقت میں بریلی میں ایس ڈی ایم (Sub Divisional Magistrate) کے عہدے پر فائز ہیں۔سیما حیدر کے چار بچے ہیں تو جیوتی موریہ دو بچیوں کی ماں ہیں۔جیوتی موریہ کا شوہر چوتھے درجے کا (forth class imploy) صفائی ملازم ہے جب کہ سیما کا شوہر وطن سے دور سعودی عرب میں ملازمت کر رہا ہے۔جیوتی موریہ کو اپنے ہم پلہ منیش دوبے سے اور سیما کو معمولی سی نوکری کرنے والے سچن مینا سے پیار ہوگیا۔جیوتی نے اپنی سروس، عزت کو داؤں پر لگایا تو سیما حیدر نے اپنا وطن، خاندان اور مذہب تک قربان کر ڈالا ہے۔

عوام اور میڈیا کا دُہرا رویہ !!

سب سے پہلے جیوتی موریہ کا قضیہ سامنے آیا۔جیسے ہی یہ قضیہ منظر عام پر آیا میڈیا اور عوام نے ایک سُر میں جیوتی موریہ کو بے وفا اور دھوکے باز ڈکلئیر کردیا۔حتی کہ ایک نیا نعرہ “بیٹی پڑھاؤ بیوی نہیں” بھی گڑھ ڈالا۔کہا جاتا ہے کہ جیوتی موریہ شادی کے وقت صرف بی اے پاس تھیں۔ان کے شوہر آلوک موریہ نے اپنی بیوی کو اعلیٰ تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحان دلایا جس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے جیوتی موریہ نے پی سی ایس (Provincial Civil Service) کلئیر کر لیا اور ایس ڈی ایم بن گئیں۔ایس ڈی ایم بننے کے بعد انہیں اپنے شوہر کی سماجی حیثیت سے شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھیں اور ان کا شوہر معمولی سا صفائی ملازم! اسی سوچ نے موصوفہ کو نگاہیں بدلنے پر مجبور کر دیا۔اُنہیں کے ہم پلہ منیش دوبے جو ضلع ہوم گارڈ کمانڈیٹ کے عہدے پر فائز تھا، سے موصوفہ کی نگاہیں لڑ گئیں اور بات سارے زمانے میں پھیل گئی۔اسی بات کو لیکر بھارتی سماج اور میڈیا لگاتار جیوتی موریہ کی کردار کشی میں لگا ہے۔سب کی ہمدردیاں آلوک موریہ کے ساتھ ہیں۔

ایسا ہی معاملہ پاکستانی خاتون سیما حیدر کا بھی ہے۔سیما سندھ کے خیر پور ضلع کے دور افتادہ گاؤں کی رہنے والی بتائی جاتی ہے۔اس کا شوہر غلام حیدر ہے۔جو چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی بیوی اور چار بچوں کو پال رہا تھا۔بچوں کے اچھے مستقبل اور خوش حال زندگی کی آس میں غلام حیدر ملازمت کے لیے 2019 میں سعودی عرب چلا گیا۔شوہر کی غیر موجودگی میں سیما کا آنلائن گیم کے دوران بھارت کے سچن مینا سے رابطہ ہوا۔آنلائن رابطہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ سیما اپنے بچوں کو چھوڑ کر سچن سے ملنے نیپال چلی آئی۔قریب ہفتہ بھر عیاشی کرنے کے بعد سیما واپس پاکستان لوٹی اور شوہر کی کمائی سے خریدے ہوئے پلاٹ کو بیچ کر اپنے بچوں کو ساتھ لیکر نیپال ہوتے ہوئے 13 مئی کو غیر قانونی طریقے سے بھارت پہنچ گئی۔جہاں اس کا عاشق سچن منتظر تھا۔دونوں نام بدل کر رہنے لگے، مگر ایک دن راز کھل گیا۔سیما، سچن اور سچن کے باپ کو جیل بھیج دیا گیا۔حیرت انگیز طور پر محض دو دن میں ہی تینوں کو ضمانت مل گئی۔اور اب سیما بھارتی میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ہر چینل سیما کا انٹر ویو لے رہا ہے اور ہندو سماج کا ہر شخص سیما کی جرأت اور محبت کو سلام کر رہا ہے۔

غور کریں! 

جیوتی سے نفرت اس لیے کی جارہی ہے کہ ان کے مطابق جیوتی کا اپنے شوہر کو دھوکہ دے کر غیر مرد سے عشق لڑانا محبت نہیں بد چلنی ہے جب کہ یہی سماج سیما کو اس لیے پلکوں پر بٹھا رہا ہے کہ سیما اپنے شوہر کو دھوکہ دے کر دوسرے مرد سے آنکھیں لڑا رہی ہے۔کام ایک مگر نظریہ الگ الگ، آخر ایک ہی کام پر جیوتی کو گالی اور سیما کو تالی کیوں؟

بات صرف اتنی سی ہے کہ جیوتی کیس میں “میاں بیوی اور عاشق” تینوں ہندو ہیں جب کہ سیما کیس میں میاں بیوی مسلم اور عاشق ہندو ہے۔اس لیے ہندو بیٹی کا ‘عشق’ بد چلنی لگ رہا ہے تو مسلم لڑکی کی ‘بدچلنی’ کو بے مثال عشق کہا جارہا ہے۔اگر سیما حیدر سچن کے بجائے کسی مسلم لڑکے کے لیے بھارت میں آئی ہوتی تو کیا تب بھی میڈیا اور ہندو سماج کا یہی رویہ ہوتا؟ دنیا جانتی ہے اگر ایسا ہوا ہوتا تو سیما کے ساتھ اس کے عاشق کا پورا خاندان دہشت گردی کے الزام میں جیل پہنچا دیا جاتا۔ مگر اب میڈیا اور عوام کے دل میں اس بات کے لیے لڈو پھوٹ رہے ہیں کہ مسلم لڑکی ہندو سماج کی بہو بننے جارہی ہے اور وہ بھی دشمن ملک کی لڑکی! یہی وہ جذبہ ہے کہ کم عمر اور کنوارا ہونے کے باوجود سچن چار بچوں کی ماں کو بھی قبول کرنے تیار ہے۔حتی کہ اس کے چار بچوں کی پرورش کا ذمہ اٹھانے کی بات بھی کر رہا ہے۔

اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم______

اسی سال 18 اپریل 2023 کو مرادآباد میں ایک روہنگیائی خاتون فاطمہ کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ یہ خاتون ایک بھارتی مسلمان سے نکاح کر چکی تھی اور اس کے تین بچے بھی تھے لیکن آج محبت کی دہائی دینے والا میڈیا کل فاطمہ کو “گُھس پیٹھیا” بتا رہا تھا۔اس سے پہلے ستمبر 2022 میں رامپور کی رہائشی فرزانہ عرف ماہرہ اختر کو سرکاری ٹیچر کے عہدے سے پاکستانی بتا کر معطل کر دیا گیا۔جب کہ فرزانہ اسی ملک میں پیدا ہوئیں، یہیں تعلیم حاصل کی۔ان کا پورا خاندان رامپور ہی میں رہتا ہے۔فرزانہ کا جرم صرف اتنا تھا کہ ان کا نکاح ایک پاکستانی شخص سے ہوا تھا۔جہاں وہ دو سال رہیں۔دو سال بعد ان کا طلاق ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس آگئیں۔یہاں انہوں نے سرکاری ملازمت حاصل کی اور ٹیچر بن گئیں۔بعد میں ان کو یہ کہہ کر ملازمت سے برخاست کردیا گیا کہ وہ پاکستانی ہیں۔فی الحال فرزانہ کورٹ میں کیس لڑ رہی ہیں۔

آج ایک پاکستانی لڑکی سے ہمدردی جتانے والا میڈیا کل فرزانہ نامی بھارت کی بیٹی کو پاکستانی بتا رہا تھا۔اپنی بیٹی کو غیر ملکی بتانا اور غیر ملکی بیٹی سے پیار جتانا آخر کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے؟

اسی تنگ نظری کی بنیاد پر سارا میڈیا اور تنگ نظر سماج اس بات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے کہ بھارت کی سرحدیں کس قدر غیر محفوظ ہیں کہ ایک معمولی پڑھی لکھی عورت کتنی آسانی کے ساتھ داخل ہوگئی۔لیکن اس وقت سب کو اس بات کی خوشی زیادہ ہے کہ ایک ‘مسلم لڑکی’ کی مانگ میں ہندو لڑکا سندور لگا رہا ہے۔بس اسی ایک سین سے ہر شخص مارے خوشی کے پھٹا جا رہا ہے۔حالانکہ سیما (جو اب اسلام چھوڑ چکی ہے) کی اسلام سے وابستگی اسی سے ظاہر ہے کہ اسے فلمی گانے تو خوب یاد ہیں مگر پہلا کلمہ اور پانچ نمازوں کے نام تک یاد نہیں۔ایسی عورت جو سرے سے اسلام کو جانتی تک نہ ہو اس کا آوارگی کی خاطر شوہر کو دھوکہ دینا کوئی تعجب خیز بات نہیں آج غلام حیدر شکار ہوا ہے تو کل سچن بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر میڈیا اور شدت پسندوں کے مسلم دشمنی کو اجاگر کر دیا ہے۔

٢٤ ذوالحجہ ١٤٤٤ھ

13 جولائی 2023 بروز جمعرات

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment