نئی دہلی، 18/اکتوبر (نمائندہ): سینئر لیڈر, حکومت ہند کے تحت قائم سینٹرل وف کونسل اور ال انڈیا حج کمیٹی کے سابق رکن الحاج محمد عرفان احمد صاحب نے معمار قوم ومحسن ملت سر سید احمد خا ن رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ “سر سید کے کار نا مے ناقابل فراموش ہیں، لہذا ملت اسلامیہ ان سے سبکدوش نہیں ہو سکتی ہے۔” الحاج عرفان احمد نے سر سید صاحب علیہ الرحمہ کے یوم ولادت کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں انہیں ایک ہمہ گیر شخصیت قرار دیا اور کہا کہ ’سر سید نے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہے، جسکو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتاہے۔ مسٹر عرفان نے سرسید کے تعلیمی نظر یہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’سرسید کا خیال تھا کہ تعلیم کیساتھ تربیت بھی ضروری ہے، جس تعلیم کیساتھ تربیت نہ ہو وہ ناقص اور بے سود ہے‘۔ انہوں نے مسلمانوں کے گھٹتے تعلیمی اداروں پر تشویش جتائی اور کہا کہ’ہم لوگ کہاں تک پہنچے ہیں، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکے کی ضرورت ہے، جبکہ سرسید صاحب ؒ نے اتنی شاندار یونیورسٹی بنا کر ہمیں دی ہے، ہم کیا کر پائے ہیں، یہ سوچنے کا مقام ہے، البتہ آگے جب ہم مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کی تقریب منائیں توہم یہ عہد کریں کہ سرسید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز میں ایک یو نیورسٹی قائم کریں گے اور یہ مشکل کام نہیں ہے، بلکہ صرف جذبہ اور حوصلہ چاہئے‘۔ انہوں نے جامع خطاب میں کہا کہ’تمام انبیائے کرام سے لیکر اولیائے عظام کو تنقید کا سامنا کر نا پڑا ہے انہی شخصیات میں ایک سرسیداحمد خانؒ بھی تھے‘۔انہوں نے افسوس کیساتھ کہا کہ’سرسید کے تصنیفات، خطوط اور تقاریر آج تک شائع نہیں ہو سکی ہیں جس پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے‘۔ عرفان احمد نے ’سرسید کو قومی یکجہتی، سیکولرازم اور ہندو مسلم بھائی چارہ کے علمبردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سرسید کے تعلیمی و سماجی اصلاحی مشن نے ہندوستان کو ترقی کا راستہ دکھایا اور انکے تعلیمی نظریہ کو اپنا کر قوم ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر تاریخ رقم کر سکتی ہے‘۔ آخر میں انہوں نے سرسید کی حیات وخدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سر سیدصاحب ؒ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی ترقی کیساتھ پوری ہندوستانی قوم کیلئے ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے، لہذا سرسید صرف علیگ برادری کی اجارہ داری کا تصور انکی عظیم شخصیت کو محدود کر نا ہے، ہمیں چاہئے انکی جانب سے کرائے گئے کاموں کو مزید آگے بڑھا ئیں، یہی سب سے اچھا ان کیلئے خراج عقیدت ہوگا‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’سر سید صاحب ہندو – مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے، وہ سبھی مذاہب کے افراد کو ساتھ میں لیکر چلنے میں یقین کرتے تھے، لہذا آج بھی یو نیورسٹی میں سبھی مذاہب کے بچے پڑھتے ہیں، یہی ہندوستان کی خوبی ہے، ہمیں ہر حال میں گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینا ہے، تبھی ہندوستان کو آگے کی طرف لے جا سکتے ہیں‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’اسوقت کے علمائے کرام نے جو انکی بنائی ہوئی تعلیمی ادارے کی مخالفت کی، لیکن آج انکی اولاد وہاں پر داخلے کیلئے لائن میں لگے ہوتے ہیں، تاہم آج عصری تعلیم کیلئے اے ایم یو پوری دنیا میں ایک اہم مقام رکھتاہے۔