تکنیک کے سہارے گاؤں والوں کی زندگیوں کو بدل رہی ہےاسٹارٹ اپ کمپنی ‘کاریا’
ٹائم میگزین نے اپنے تازہ شمارے میں اس بابت کَوَر اسٹوری شائع کی ہے
- یہ کمپنی ملک بھر کے دیہی علاقوں میں 30 ہزار سے زیادہ گاؤں والوں کو اپنے ساتھ جوڑ چکی ہے
- یہ کمپنی مصنوعی ذہانت کے لیے ہندوستانی زبانوں میں ڈیٹا جمع کرتی ہے
- کمپنی کے پاس پہلے ہی مائیکروسافٹ، ایم آئی ٹی اوراسٹینفورڈ سمیت ہائی پروفائل گاہک ہیں
- اس سے ہندوستانی زبانوں کے اے آئی پروجیکٹوں کو انگریزی کی اے آئی کی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد ملے گی
نئی دہلی،31 جولائی: دنیا کے مقبول انگریزی رسالے ٹائم نے اپنے تازہ ترین شمارے میں ایک ہندوستانی اسٹارٹ اپ کمپنی کے بارے میں جو کہانی شائع کی ہے اس نے دنیا کے نقشے پر حکومت ہند کی اسٹارٹ اپ پالیسیوں کا سکہ جمادیا ہے۔ رسالے میں شائع ہونے والی یہ کہانی بنگلورو کی ایک اسٹارٹ اپ کمپنی ‘کاریا’سے متعلق ہے جس نے تکنیک کی مدد سے گاؤں والوں کی زندگی میں قابل ذکر تبدیلی لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کمپنی گاؤں والوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے چیٹ جی پی ٹی کے زمانے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہے۔
رسالے کی کہانی چندریکا نامی ایک اسکول ٹیچر کی داستان سے شروع ہوتی ہے جو ایک ایپ کے استعمال سے اپنی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کرچکی ہے۔ یہ خاتون کاریا (اسٹارٹ اپ کمپنی )سے جڑی ہیں اور انگریزی کے علاوہ صرف کنڑ زبان جانتی ہے۔ کاریا نے مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی آواز کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔ کمپنی، چندریکا کے موبائل پر ٹیکسٹ میسج بھیجتی ہے اور وہ اسے پڑھ کر آڈیو فائل بنا کر کمپنی کو واپس بھیج دیتی ہیں۔ اس سے انہیں ہر گھنٹے میں تقریباً تین سو روپے ملتے ہیں۔ ہر روز وہ چھ گھنٹے کام کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی روایتی کاشت کاری بھی کرلیتی ہیں۔
کاریا 2021 میں بنگلورو میں ایک غیر منافع بخش اسٹارٹ اپ کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔ یہ کمپنی اپنے آپ کو ‘دنیا کی پہلی اخلاقی ڈیٹا کمپنی’ قرار دیتی ہے۔ اس کے پاس پہلے سے ہی مائیکروسافٹ، ایم آئی ٹی اوراسٹینفورڈ سمیت ہائی پروفائل گاہکوں کی ایک فہرست ہے۔ یہ اپنی مسابقتی کمپنیوں کی طرح بڑی تکنیکی کمپنیوں اور دیگر گاہکوں کو بازار کی شرح پر ڈیٹا فروخت کرتی ہے اور ڈیٹا کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا بیشتر حصہ نفع کی شکل میں اپنے پاس رکھنے کی بجائے یہ اپنی لاگت کو کور کرتی ہے اور باقی رقم کو دیہاتوں میں رہنے والے غریبوں پر خرچ کرتی ہے۔ کمپنی نے مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کی ملازمتوں تک رسائی سب سے زیادہ غریب لوگوں کے ساتھ ساتھ تاریخی طور پر حاشئے پر رہنے والے طبقات کی ہو۔ کمپنی اپنے ملازموں کو کم از کم 300 روپے فی گھنٹے کی اجرت کے علاوہ ان کے ذریعہ تیار کئے گئے ڈیٹا کی اصل ملکیت دیتی ہے۔ اس لیے جب بھی اسے دوبارہ فروخت کیا جاتا ہے، تو ملازمین کو ان کی سابقہ اجرت کے علاوہ فاضل آمدنی حاصل ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو صنعت میں کہیں اور موجود نہیں ہے۔
کاریا جو کام کررہی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہےکہ لاکھوں لوگ ، جن کی زبانیں فی الوقت آن لائن حاشئے پر ہیں، اے آئی سمیت ٹیکنالوجی کے فائدوں تک بہتر رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ کمپنی کے 27 سالہ سی ای او منو چوپڑا کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ کاریا اپنے ملازمین سے جو پہلی بات کہتی ہے ، وہ یہ کہ یہ کوئی مستقل نوکری نہیں ہےبلکہ یہ جلدی سے آمدنی میں اضافے کا ایک طریقہ ہے جوآپ کو آگے بڑھنے اور دیگر کام کرنےکی چھوٹ دے گا۔ایپ کے ذریعہ سے ایک ملازم زیادہ سے زیادہ سوا لاکھ روپے تک کما سکتا ہے جو ہندوستان میں اوسط سالانہ آمدنی ہے۔
کمپنی کا کہنا ہےکہ اس نے ملک بھر میں تقریباً 30 ہزار گاؤں والوں کو اپنے ساتھ جوڑا ہے اور تقریباً ساڑھے چھ کروڑ روپے کی اجرت ادا کی ہے۔ چوپڑا چاہتے ہیں کہ 2030 تک یہ بڑھ کر 10 کروڑ تک پہنچ جائے۔غربت میں آنکھیں کھولنے والے اور اسٹینفورڈ میں تعلیمی وظیفہ حاصل کرنے والے چوپڑا کہتے ہیں”مجھے ایسا لگتا ہےکہ اگر صحیح طریقے سے کام کیا جائے تو یہ لاکھوں افراد کو غریبی سے باہر نکالنے کا سب سے تیز طریقہ ہے۔یہ ایک سماجی پروجیکٹ ہے۔ دولت ہی طاقت ہے اور ہم ان طبقات میں دولت کی از سر نو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جو پیچھےچھوٹ گئے ہیں۔”
خیال رہے کہ اس ایپ پر کام کرنے کا سب سے بڑا فائدہ ہے اپنے وقت کے مطابق کام کرنا اور اپنی جگہ پر رہ کر کام کرنانیزاپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنے کی آسانی اور پوری آزادی۔کیوں کہ ایک عام ملازم کو ہر روز کام کے لیے اپنے دفتر ،کمپنی یا کارخانہ جانا پڑتا ہے، بسوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور پھر شام تک گھر واپس آنےکی جھنجھٹ سے ہر روز جوجھنا بھی پڑتا ہے۔ ان صعوبتوں سے اس تکنیک نے اپنے ساتھ جڑنے والوں کو نجات دلا دی ہے جو ایک عام آدمی کے لیے بڑی راحت کی بات ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کے”آتم نربھر بھارت”سے مہمیز حاصل کرتے ہوئے تکنیک کی مدد سے عام لوگوں کو بااختیار بنانے کی جانب یہ نئی پہل قدمی ہے جس کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے اور اس سے بڑی تعداد میں دور دراز کے رہنے والے افراد مستفید بھی ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹائم میگزین نے مصنوعی ذہانت کی تکنیک سے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے سے متعلق بہت طویل رپورٹ شائع کی ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن بھارت میں تکنیک کی مدد سے جس طرح سے روزگار کے مواقع پیدا کئے جا رہے ہیں اس کی گونج پوری دنیا میں سنی جا رہی ہے جو ملک کے لیے نیک فال ثابت ہوگا۔
*******************