نئی دہلی ”21 ستمبر کو دنیا بھر میں ’امن کا عالمی دن‘ اور 2 اکتوبر کو ’یوم عدم تشدد‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی دن بھارت کے لئے خاص معنویت کے حامل ہیں۔بھارت ایک کثیر ثقافتی، کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک ہے جس کا آئین انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ان اصولوں کا تقاضہ ہے کہ یہاں کے لوگ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ باہم مل جل کر رہیں۔ آج کچھ طاقتیں نفرت اور تقسیم کے نام پر اقتدار کی تلاش میں ہیں۔ان حالات میں سماج کے اندر آپسی رواداری اور اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے“۔یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے جماعت اسلامی ہند کی جانب پریس کانفرنس میں کہیں۔بھارتی روپیہ کی گرتی ہوئی قدر پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے ہمارے روپے کی قدر تقریباً 81.47 روپے تک گرگئی ہے۔ تاریخی طور پر یہ روپے کی سب سے کم قیمت ہے۔روپے کی قدر میں کمی آنے سے ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں افراط زر بڑھے گا نتیجتاً ہماری مانیٹری پالیسی سخت ہوجائے گی اور پہلے سے ہی مہنگائی کی مار جھیل رہے عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا اور ملک میں معاشی ابتری پیدا ہوگی۔ ممالک کی درجہ بندی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افراد کی بہبودی اشاریے (ہیومن ڈولپمنٹ انڈیکس) 2022 میں 191 ممالک میں ہمارا ملک 132 ویں رینک پر ہے جو کہ تشویش کی بات ہے“۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ایف آئی پر پابندی عائد کئے جانے کے تعلق سے جماعت اسلامی کا موقف بالکل واضح ہے کہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کی ذہنیت جمہوری اقدار کے منافی ہے۔اگر کسی پرکوئی الزام ہے تو اس کا فیصلہ عدالت میں ہونا چاہئے“۔گیان واپی مسجد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم قانونی کارروائی پر یقین رکھتے ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے“۔
سپریم کورٹ کی بینچ کی جانب سے اسقاط حمل کی اجازت دیئے جانے کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں جماعت اسلامی ہند کی نیشنل سکریٹری محترمہ رحمت النساء صاحبہ نے کہا کہ ”اسقاط حمل بنیادی طور پر ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔جنین میں ایک انسانی زندگی بستی ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ اس زندگی کا خاتمہ کردیں۔یہ انسانی حقوق کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔محض اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے اور بعض حالات میں اپنی یا کسی اور کی اخلاقی پستی کو چھپانے کے لئے اسقاط کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے صنف نازک کو جذباتی اور جسمانی طور پر طویل مدتی نقصان کا خدشہ ہے۔یہی نہیں، اس قانون کے بعد خواتین کا استحصال کئی گنا بڑھ جائے گا۔ کیونکہ مرد ان کے ساتھ انجام دیئے گئے اپنے اعمال کے نتائج سے بے خوف ہوجائیں گے“۔خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم کے بارے میں پوچھا گیا تو محترمہ رحمت النساء نے کہا کہ ” ہمارے معاشرے میں خواتین کو مناسب مقام دینے کا ریکارڈ مایوس کن ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 میں ان کے خلاف جرائم کے 4.2 لاکھ سے زیادہ واقعات سامنے آئے۔خواتین کے تئیں نقطہ نظر میں بدلاؤ لاکر معاشرے میں اصلاحات لانے کی شدید ضرورت ہے۔