نئی دہلی: ”بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کرنے والے مجرمین کی رہائی کے لئے وزارت داخلہ کی رضامندی افسوسناک ہے۔حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے 14 افراد جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل ہے، کو بہیمانہ قتل کردیا گیا تھا۔اس جرم کو انجام والے والے 11 افراد کی’عام معافی‘ پالیسی کے تحت رہا کرنے کا فیصلہ گجرات حکومت نے کیا تھا۔ معافی کے اس فیصلے سے وزارت داخلہ حکومت ہند کا اتفاق کرنا،یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ مجرموں کے ساتھ ہے نہ کہ مظلومین کے ساتھ ۔ یہ عمل حکومت کے اس دعوے کو بے نقاب کررہا ہے کہ وہ’خواتین کے حقوق کی محافظ اور ان کو بااختیار بنانے میں سنجیدہ‘ ہے۔ حکومت کے اس فیصلے سے نہ صرف بلقیس بانو اور اس کے خاندان کے افراد کو ذہنی اذیت اور نفسیاتی تکلیف پہنچی ہے بلکہ ملک کے محروم طبقات کو بھی اس سے شدید صدمہ پہنچا ہے“۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ نہایت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سسٹم میں عصمت دری کرنے والوں کو عزت دی جارہی ہے جیسا کہ اناؤ، کٹھوہ اور ہاتھرس کے معاملے میں دیکھا گیا تھا۔اس صورت حال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ کسی مخصوص طبقے کو خوش کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا، برسراقتدار پارٹی کے نزدیک عدل و انصاف سے زیادہ اہم ہے۔ہم اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے میں مداخلت کرکے سرکاری پالیسی کی آڑ میں کی گئی اس ناانصافی کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا کرے گی“۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت بھی ہوئی ہے۔چنانچہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی بی آئی، ممبئی اسپیشل کرائم برانچ، اسپیشل سول جج (سی بی آئی)، سٹی سول اینڈ سیشن کورٹ گریٹر بمبئی نے قیدیوں کی جلد رہائی کی مخالفت کی تھی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ وزارت داخلہ عصمت دری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم انجام دینے والوں سے واقف ہونے کے باوجود سزا معاف کرنے کی منظوری دی۔اگر حکومت اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ یہ رہائی قانون کے مطابق تھی تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ ایسے اقدام سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوں گے۔انہیں گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کے باوجود جلد یا دیر سے اس سسٹم کے ذریعے ضمانت ملنے کا یقین ہوگا“۔ انہوں نے کہا کہ ”میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام مجرموں کو جیل کی مدت کے دوران ایک ہزار دنوں تک پیرول، فرلاف اور عارضی ضمانت کا فائدہ دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گجرات حکومت ان کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کررہی ہے۔ ۔بعض گروپوں کی طرف سے ان مجرموں کو مبارکباد بھی پیش کی گئی جو کہ ایک قابل مذمت رویہ ہے۔ یہ پورا واقعہ ایک ایسی خطرناک نظیر قائم کرتا ہے جو ہمارے عدل و انصاف فراہم کرنے والے نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے گا۔ اس سے ہماری بین الاقوامی برادری میں ساکھ متاثر ہوگی۔ اگر جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو بچاناہے تو بلقیس بانو کیس میں عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کورہا نہیں ہونا چاہئے“۔