مساجد اور گورنمنٹ
نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب
ایک کمیونٹی سنٹرکے طور پر جب ہم اپنی مسجد کا تصور قائم کرتے ہیں جو آنحضور ﷺ کے زمانہ میں تھا، تو مختلف قسم کے تعلیمی، سماجی، معاشی، رفاہی اور دینی امور کی انجام دہی کا سرچشمہ وہ خود بخود بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مسجد کو ایسی قانونی حیثیت حاصل ہو تو ہم بہت سی قانونی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں اور اس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ ہم این جی او کھول لیں اور مسجد کی تمام سرگرمیوں کو اسی دائرے میں لے آئیں، کسی بھی مسجد کو ایک این جی او کے تحت لانے سے کئی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں:
(۱) فنڈنگ میں سہولت حاصل ہوتی ہے، حساب کتاب آسان ہوتا ہے جس کی وجہ سے شفافیت پیدا ہوتی ہے۔
(۲) موجود اراکین اور انتظامیہ اگر نہ رہیں تو دوسرے لوگ قانونی طور پر اس کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے قابل ہوتے ہیں۔
(۳) سرکار کی نظر میں آپ کی تمام مالیاتی سرگرمیاں قانون کے دائرہ میں رہتی ہیں جس کی وجہ سے کوئی سرکاری رکاوٹ یا خلل نہیں پیدا ہوتا۔
(۴) تنظیمی ڈھانچہ ہونے کے باعث متولی، مسجد کی کمیٹی اور محلہ کے دیگر افراد کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
(۵) جب آپ باقاعدہ ایک آرگنائزیشن کے طور پر کام کرتے ہیں تو سالانہ رپورٹ تیار کرنی پڑتی ہے اور پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے مشن میں کہاں تک کامیابی حاصل کی، کتنے پیسے خرچ کیے اور کیا کمیاں اور خامیاں رہ گئیں۔
بہرحال اپنی مسجد کو ایک طرف این جی اوز کے ذریعہ جوڑدینے سے بہت سی مشکلات کم ہوجاتی ہیں تو دوسری طرف تنظیمی طور پر کام کرنے سے فعالیت اور کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔