ہندوستانی عازمین حج کی پریشاینوں کا ذمہ دار کون؟
سہیل انجم
حج ایک ایسی عبادت ہے جو محنت و مشقت چاہتی ہے، قربانی چاہتی ہے۔ پیسے کی قربانی، وقت کی قربانی، صحت کی قربانی۔ اس سفر میں قدم قدم پر دشواریوں اور پریشانیوں کی ناقابل عبور گھاٹیاں ہیں جنھیں ہر حاجی کو بہرحال عبور کرنا ہوتا ہے۔ پریشانیوں کا آغاز سفر کی ابتدا سے ہی ہو جاتا ہے اور حاجی کے اپنے وطن واپس آجانے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ عبادت صبر و برداشت بھی چاہتی ہے۔ نیک بندے ہر پریشانی کو تحمل کے ساتھ انگیز کر لیتے ہیں، شکوہ نہیں کرتے۔ لیکن بہرحال کوئی انسان کب تک صبر کرے گا۔ یوں تو ہر سال ہندوستانی عازمین حج کی جانب سے شکایت کی جاتی ہے کہ انتظامات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایئر پورٹ پر اور مکہ مدینہ میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہوٹلوں میں انتظامات حسب منشا نہیں۔ ہوٹلوں کے کمرے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد رکھ دیے گئے ہیں۔ عزیزیہ کے فلیٹس ناقابل استعمال ہیں۔ محرم نامحرم سب ایک ساتھ ہیں۔ پردے کا کوئی انتظام نہیں۔ ایک کمرے میں اگر دو دہلی کے ہیں تو تین میواتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مزاج اور انداز بود و باش سے ناواقف۔کہیں لفٹ کام نہیں کر رہی تو کہیں اے سی صحیح نہیں چل رہا۔ کسی واش روم میں انگلش کموڈ ہے تو کسی میں دیسی۔ کسی کا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے تو کسی میں بالٹی اور مگ نہیں ہے۔ غرضیکہ ہزار قسم کی پریشانیاں ہیں جن کا اظہار حاجیوں کی زبانی ہوتا ہے۔ عازمین ویڈیوز بھیج کر اپنی پریشانی بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس بار ایسا لگتا ہے جیسے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پریشانیاں ہیں۔ دہلی سے شروع میں مدینہ جانے والے عازمین کو دو دو تین تین دن اپنا سامان نہیں ملا۔ وہ جن کپڑوں میں گئے تھے انھیں میں کئی روز تک رہنا پڑا۔ جن ہوٹلوں میں ان کو پہنچایا گیا وہاں ان کا کوئی اندراج نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یہاں بے یار و مددگار پڑے ہیں کوئی سدھ لینے والا نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جب کچھ حاجی مدینہ پہنچ گئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ احرام باندھیے اور مکہ چلیے عمرہ کرنے۔ لیکن گھنٹوں تک بسیں نہیں آئیں۔ شکایات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے اور اس کی ذمہ داری کس کے سر جاتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ امسال رہائش کا مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ جہاں تک مدینہ کے ہوٹلوں او رمکہ کے عزیزیہ کے فلیٹس کی بات ہے تو ان کے انتخاب کے سلسلے میں مرکزی حج کمیٹی اور ریاستی حج کمیٹیوں کے افسران جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سہ مرحلہ جاتی نظام کام کرتا ہے۔ پہلے مرکزی حج کمیٹی اور ریاستی حج کمیٹیوں کے اہلکاروں پر مشتمل بلڈنگ سلیکشن ٹیم (بی ایس ٹی) جاتی ہے وہ عمارتوں کا جائزہ لیتی اور ان کا انتخاب کرتی ہے۔ پھر بلڈنگ سلیکشن کمیٹی (بی ایس سی) جاتی ہے وہ بھی یہی کام کرتی ہے اور آخر میں ان دونوں کمیٹیوں کی نشان زد کی گئی عمارتوں کے بارے میں قونصل جنرل آف انڈیا کی ٹیم فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ اس بار اس نظام کو اختیار نہیں کیا گیا۔ رہائش کے مسئلے کی پہلی وجہ غالباً یہی ہے۔ دوسری وجہ مدینہ میں ہوٹلوں کی کمی ہے۔ وہاں کئی ہوٹل ٹوٹ گئے ہیں۔ نئے ہوٹل تعمیر کیے جانے ہیں۔ ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ حکومت سعودی عرب نے پہلے کے برعکس زیادہ دنوں تک عمرہ کے ویزے جاری کر رکھے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق معتمرین اٹھارہ جون تک وہاں رہیں گے۔ جبکہ پہلے عید بعد عمرہ کا ویزہ بند ہو جاتا تھا۔
مدینہ کے کمروں کے بارے میں جو شکایات موصول ہو رہی ہیں اس سلسلے میں باخبر افراد کا کہنا ہے کہ دراصل حجاج کی اکثریت نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو وہاں کے ہوٹلوں کے ضابطوں سے ناواقف ہوتی ہے۔ وہ ان ہوٹلوں میں اپنی منشا کے مطابق سہولتیں ڈھونڈتی ہے جو ظاہر ہے وہاں نہیں مل سکتی۔ کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد رکھنے کی شکایت بجا ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پوری دنیا سے حجاج جاتے ہیں جن کو انہی ہوٹلوں میں ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ وہاں تو عام دنوں میں بھی دو بیڈ کی گنجائش والے کمروں میں چار پانچ بیڈ لگے ہوتے ہیں۔ حج کے سیزن میں تو اور بھیڑ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ہوٹل مالکوں کی مجبوری ہے اور پھر کمانے کا بھی وقت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سے حجاج چھوٹی پریشانی کو بھی بہت بڑی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ تو ہمارا بھی ذاتی تجربہ ہے۔ جہاں تک اس شکایت کا معاملہ ہے کہ دہلی سے جانے والے بہت سے عازمین کو آخر وقت میں شیڈول کے برخلاف مدینہ کے بجائے جدہ لے جایا گیا جس کی وجہ سے وہ احرام اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے کیونکہ دو روز قبل ہی سامان چلا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم نے دہلی حج کمیٹی کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر محمد اشفاق عارفی سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ بعض انتظامی مسائل کی وجہ سے آخر کی آٹھ پروازوں کو جو کہ مدینہ جانے والی تھیں جدہ روانہ کیا گیا لیکن تمام عازمین کو مختلف طریقوں سے اس کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ پھر بھی دہلی حج کمیٹی نے بطور احتیاط کچھ احرام اور چپلیں خرید لی تھیں اور جن عازمین کا احرام لگیج میں رہ گیا تھا انھیں ایئرپورٹ پر احرام دیے گئے۔ لیکن بہر حال ایسا لگتا ہے کہ کچھ دشواریاں حکومت کی پیدا کردہ بھی ہیں۔ ہر سال خادم الحجاج بھیجے جاتے ہیں جو سرکاری ملازمین کے ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف سے منتخب کیے جاتے ہیں اور جن کا کام ان کے تحت دی گئی عمارتوں کے حجاج کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ پہلے بھی ان کے بارے میں شکایتیں عام تھیں لیکن اس بار زیادہ ہیں۔ حکومت نے امسال شرائط پوری کرنے والے پولیس کارکنان کو بھی بھیجا ہے۔ جبکہ خادم الحجاج کے علاوہ انتظامی کارکنان کے زمرے میں حج آفیسر، اسسٹنٹ حج آفیسر اور حج اسسٹنٹ کے طور پر عام سرکاری ملازمین کے بجائے آرمڈ فورسز کے عملے کو بھیجا گیا ہے۔
ایک معاملہ امسال حج کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کا بھی ہے۔ اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے سات فروری کو پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ حکومت نے امسال حج کے اخراجات میں پچاس ہزار کی تخفیف کر دی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے۔ اس سے قبل عازمین کو سعودی عرب میں اخراجات کے لیے ایئر پورٹ پر ۰۰۱۲ ریال دیے جاتے تھے جو موجودہ ہندوستانی کرنسی میں تقریباً پچاس ہزار روپے بنتے ہیں۔ عازمین کو اس کے مساوی رقم پہلے حج کمیٹی میں جمع کرانی ہوتی تھی۔ حکومت نے امسال وہ رقم نہیں لی لیکن ریال بھی نہیں دیے۔ امسال حج کے اخراجات گزشتہ سالوں کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں حج کمیٹی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے اس بار حجاج پر جی ایس ٹی نافذ کر دیا اور ایئرلائنز نے ٹکٹ مہنگے کر دیے جس کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ کچھ لوگ مرکزی حج کمیٹی میں مالی بدعنوانیوں کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں اس لیے ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ تاہم مرکزی حج کمیٹی کے ذمہ داران اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ایسا الزام لگانے والوں میں دہلی کی ایک نجی تنظیم انجمن فلاح حجاج کے صدر حاجی محمد ظہور اٹیچی والے پیش پیش ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مرکزی حج کمیٹی کا دفتر دہلی منتقل کیا جائے تاکہ اس کے کاموں میں شفافیت آسکے۔ یہ مطالبہ درست لگتا ہے۔ جب سب کچھ دہلی سے ہوتا ہے تو حج کمیٹی کا صدر دفتر ممبئی کیوں ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے قبل نجی خادم الحجاج تنظیموں کے رضاکاروں کو ایئرپورٹ پر جا کر حجاج کی خدمت کرنے کی اجازت تھی لیکن اس بار حکومت نے ان تنظیموں پر پابندی عاید کر دی۔ اس وجہ سے بھی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ غرضیکہ امسال مسائل پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی لاپروائی اور متعلقہ اداروں میں تال میل کا فقدان ہے۔ اب اسمرتی جی کا دعویٰ ہے کہ تمام مسائل حل کر لیے گئے ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بہت سے میڈیا والوں کو سعودی عرب بھیجا ہے تاکہ ان کی مدد سے دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ ہم نے بہت شاندار انتظام کیا ہے۔