ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
انتخابی سیاست میں ذاتوں کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ٹکٹ دیتے وقت ذاتوں کے سمیکرن کو دھیان میں رکھتی ہیں ۔ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بھی اس کا نظارہ دکھائی دے رہا ہے ۔ مثلاً مدھیہ پردیش میں کانگریس نے 144 اور بی جے پی نے 136 سیٹوں کے لئے امیدواروں کی لسٹ میں بھی ذاتوں کا سمیکرن دکھائی دیتا ہے ۔ جنرل کیٹگری کے تحت کانگریس نے 47، بی جے پی نے 48، او بی سی 39 اور 40، درج فہرست قبائل کو 30 – 30 اور 22، 18 دلت امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ کانگریس 6 سیٹوں پر مسلم امیدوار اتارتی ہے ۔ جبکہ بی جے پی نے ابھی تک ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے ۔ حالانکہ ریاست میں 7 فیصد ہے ۔ 19 اضلاع میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ ہے ۔ دو درجن سیٹوں پر اچھی خاصی آبادی ہے لیکن ایک درجن سیٹوں پر مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔
ملک میں کاسٹ پالیٹکس کی ابتدا اونچی ذاتوں کی سیاسی و سماجی برتری کے خلاف رام منوہر لوہیا اور کر پوری ٹھاکر کے احتجاج سے ہوئی ۔ پسماندہ ذاتوں کے منظم ہونے کے نتیجہ میں رام منوہر لوہیا نے 1967 میں کانگریس کو اترپردیش کے اقتدار سے بے دخل کرکے چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا تھا ۔ اور کرپوری ٹھاکر بہار میں نائب وزیر اعلیٰ بنے تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب سنگھ کو اقتدار کے گلیارے میں جگہ ملی ۔ اسے عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت منڈل اور کمنڈل کے علمبردار اپنے سارے نظریاتی اختلافات بھلا کر سیاسی مفاد کی خاطر ساتھ آ گئے ۔ جب مرکز میں مرارجی دیسائی کی حکومت بنی اس وقت تک ذات کی بنیاد پر بنی علاقائی پارٹیاں اتنی مضبوط ہو چکی تھیں کہ ان کے دباؤ میں مرکزی حکومت کو دیگر پسماندہ طبقات کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی نمائندگی کا اندازہ لگانے کے لئے منڈل کمیشن کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ یہ ملک کی سیاست میں بڑا قدم تھا ۔
منڈل کمنڈل کے ملن سے ہی سابق کانگریسی وی پی سنگھ مرکز میں حکومت بنا سکے ۔ انہیں ذات کی بنیاد پر بنی علاقائی جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کی حمایت حاصل تھی ۔ وی پی سنگھ نے دیوی لال، ملائم سنگھ اور لالو پرساد یادو کے دباؤ میں منڈل کمیشن کی شفارسات کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ۔ جس کی وجہ سے بی جے پی بلبلا اٹھی ۔ اس نے اعلیٰ ذات کے طلبہ سے منڈل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع کرادیا ۔ وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی اور جس رام مندر کی تحریک کو وشو ہندو پریشد لے کر چل رہا تھا اسے پوری طرح اپنا لیا ۔ اس نے اعلیٰ طبقہ کے ساتھ دیگر پسماندہ طبقات خاص طور سے او بی سی کی نچلی ذاتوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ۔ کیونکہ او بی سی میں انتہائی پسماندہ ذاتوں کی تعداد کئی دیگر ذاتوں کی کل تعداد سے زیادہ ہے ۔ او بی سی کی اونچی ذاتیں مختلف ریاستوں میں وہاں کی علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں ۔ سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو او بی سی کی اونچی ذاتوں کے 22 فیصد اور نچلی ذاتوں کے 17 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ جبکہ کانگریس کے ساتھ او بی سی کی اعلیٰ ذاتوں کے 24 فیصد اور انتہائی پسماندہ طبقات کے 27 فیصد ووٹ گئے تھے ۔
بی جے پی نے اپنی انتخابی حکمت عملی تبدیل کر سوشل انجینئرنگ کے ذریعہ او بی سی میں غیر یادو اور دلتوں میں غیر جاٹوں کی حمایت حاصل کی ۔ اس کے نتیجہ میں 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں او بی سی کی 30 فیصد اونچی اور 43 فیصد نچلی ذاتوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ۔ 2019 کے انتخابات میں یہ تعداد بڑھ کر 40 اور 48 فیصد ہو گئی ۔ بی جے پی نے او بی سی کی اونچی ذاتوں کے مقابلہ نچلی ذاتوں کو زیادہ کامیابی کے ساتھ لام بند کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے کانگریس کے او بی سی ووٹ 2019 میں کم ہو کر 13 اور 15 فیصد رہ گئے ۔ علاقائی پارٹیوں کو بھی اس ووٹ بنک کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ 1996 میں دونوں طبقات کے ووٹ بالترتیب 40 اور 43 فیصد سے کم ہو کر 2019 میں 33 اور 20 فیصد ووٹوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ۔ اس کی بڑی وجہ بی جے پی کا اس طبقہ میں سیندھ لگانا تھا ۔ بی جے پی پسماندہ طبقات کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ ان کی سب سے بڑی ہمدرد ہے ۔ لیکن نمائندگی دینے کے معاملہ میں اس نے ہمیشہ خاموشی اختیار کی ہے ۔
خواتین ریزرویشن بل سے بھی او بی سی اور اقلیتی طبقہ کی خواتین کو الگ رکھا گیا ہے ۔ مختلف علاقائی پارٹیاں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتی رہی ہیں لیکن بی جے پی کسی نہ کسی حیلے بہانے کے ذریعہ اس سے بچتی رہی ۔ اب اپوزیشن جماعتیں کانگریس کا ساتھ ملنے کے بعد پیغام دے رہی ہیں کہ وہ ہی او بی سی کی حقیقی ہمدرد ہیں ۔ بہار حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد و شمار عام کر دیئے ۔ یہ آنکڑے آنکھیں کھولنے والے ہیں ۔ ریاست کی کل آبادی میں او بی سی کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کو ملا دیا جائے تو ریاست کی کل آبادی میں ان کی تعداد 84 فیصد ہے ۔ زیادہ تر ریاستوں میں کم و بیش یہی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں اس بات کا امکان ہے کہ او بی سی طبقہ کی جانب سے سماجی انصاف یعنی سیاسی نمائنگی کی مانگ زور پکڑے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ملک کی سیاست کے پوری طرح بدل جانے کا امکان ہے ۔ کیونکہ اس کا اثر ایک طرف جہاں پسماندہ ذاتوں پر پڑے گا وہیں دوسری طرف سیاسی بحث پولرائزیشن کے بجائے حصہ داری پر ہوگی ۔ یہ بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ جو نریندر مودی پچھڑے ہونے کا سہارا لے کر اقتدار تک پہنچے اس معاملے میں ان کا رپورٹ کارڈ بے حد خراب ہے ۔
راہل گاندھی نے سی ڈبلیو سی کی میٹنگ میں اعلان کیا کہ آج پورا ملک ذات پر مبنی مردم شماری چاہتا ہے ۔ ہم اپنے اقتدار والی سبھی ریاستوں میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے چار وزیر اعلیٰ میں سے تین او بی سی سے ہیں ۔ جبکہ بی جے پی کے 10 وزیر اعلیٰ میں سے صرف ایک کا تعلق او بی سی سے ہے ۔ وہ وزیر اعلیٰ بھی کچھ دن بعد نہیں رہ جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پارلیمنٹ میں مثال دی تھی کہ ملک کے 90 سکریٹریوں میں سے صرف تین او بی سی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم ملک کے اکثریتی طبقہ کو اس کا حق دلانا چاہتے ہیں ۔ ہم غریبوں کو ان کی حصہ داری دلائیں گے ۔ ذاتوں کے سروے کے بعد ہم اقتصادی سروے بھی کرائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آج آبادی کے مطابق حق کی بات ہو رہی ہے ۔ یہ بات ہندتوا کے نظریہ سے میل نہیں کھاتی ۔ اسی لئے وزیراعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ کانگریس ہندو سماج کو بانٹنا چاہتی ہے ۔
ہندتوا کی بنیاد سب کو ہندو ثابت کر کے کمزوروں کا استحصال کرنا ہے ۔ اس لئے جب بھی سماجی انصاف کی بات ہوتی ہے کمنڈل کو اپنی بنیاد ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ حالانکہ بہار میں ہوئی ذات پر مبنی مردم شماری نے ثابت کر دیا ہے کہ ریاست میں 36 فیصد انتہائی پسماندہ، 27 فیصد پسماندہ، ایس سی 19.65 اور ایس ٹی 1.68 فیصد ہیں ۔ یعنی اگر او بی سی کی اونچی اور نچلی ذاتوں کو ملا دیا جائے تو ان کی تعداد 63 فیصد ہو جاتی ہے ۔ اگر اس میں ایس سی اور ایس ٹی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 84 فیصد ہو جائے گی ۔ بی جے پی جس سیاسیت کی لڑائی کو 80 بنام 20 بتاتی ہے ۔ ان اعداد کے مطابق دراصل وہ لڑائی 16 بنام 84 کی ہے ۔ اب اگر انتخابات میں “جس کی جتنی سنکھیا بھاری اس کی اتنی حصہ دار” کا نعرہ چل گیا تو اس کا بی جے پی کے مستقبل پر اثر پڑے گا ۔ مگر یہ نعرہ انتخابی سیاست میں او بی سی کا کردار طے کر دے گا ۔ اس سے نہ صرف ملک کی سیاست بدلے گی بلکہ سماج کے درمیان آئی دراروں کو بھرنے میں بھی مدد ملے گی ۔