ہندستان اور پاکستان میں بھوکوں کی حالت؟ 

The condition of the hungry in India and Pakistan?
ہندستان اور پاکستان میں بھوکوں کی حالت؟ 
ایک پاکستانی قلمکار… ترتیب: عبدالعزیز 
  غربت بڑھتی جا رہی ہے اور سیاسی فساد اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔
یہ ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں روزانہ دسترخوان بچھتا تھا۔ ہم کھانا لے کر جاتے تھے اور دوسرے بچے بھی لاتے تھے۔ غریب لوگ اور مسافر وہاں بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اب ذرا دیکھئے، آج کتنی مسجدیں ہیں جہاں یہ انتظام موجود ہے؟
پاکستان آج بھی ہندستان کے مقابلے میں خوراک کی کمی کے عالمی پیمانے کے مطابق نسبتاً بہتر درجے میں ہے۔ ’بھوک پیمانہ‘ 121 ملکوں کو جانچتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک ہندستان اس ’بھوک پیمانہ‘ پر 107 ویں درجے پر ہے، جبکہ پاکستان نسبتاً بہتر حالت میں 99درجے پر ہے۔ یہ اعداد و شمارغلط نہیں ہیں۔ میں نے ہندستان میں غربت اور بھوک کے مجسم آثار کو ہر جگہ اپنی نظروں کے سامنے پایا۔ لوگ سڑکوں پر بھوکے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔
20 فی صد سے زیادہ پاکستانی مناسب کھانا نہیں کھا پاتے، تقریباً 45 فی صد پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی نشوو نما ٹھٹھر چکی ہے۔ لہٰذا بھوک کے مسائل پر اَزحد اور فوراً توجہ کی ضرورت ہے۔
الحمدللہ، شہروں میں سخی لوگ دسترخوان پہ دسترخوان بچھا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے کارخانے میں کام صرف 30 فی صد رہ گیا ہے، مگر وہ مزدوروں کو فارغ کرنے کے بجائے کارخانے ہی میں سبزیاں اگا کر اور بکریاں پال کر ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ایک دکان دار نے بتایا کہ جب کوئی آدھا کلو آٹا لینے کے لئے آئے تو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اس سے زیادہ لینے کے پیسے نہیں ہیں اور پھر وہ اپنی جانب سے انھیں زیادہ غلہ فراہم کر دیتے ہیں۔
ہمیں ایک ایسا نظام بنانا چاہئے کہ غریب کو کم از کم کھانے کی فکر نہ ہو۔ بنیادی طور پر تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نظام بنائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کا اعتبار حکومت سے اٹھ چکا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہے اور کچھ کر بھی دے، تو لوگ اس سے شاید فائدہ نہ اْٹھا سکیں۔ لہٰذا یہ نظام اپنی مدد آپ کے تحت بنانا ہوگا۔ یہ کام ان اداروں کو کرنا چاہئے، جن اداروں کی ساکھ ہے اور جو لوگوں کی خدمت میں معروف ہیں۔ ان میں ’الخدمت فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، اخوت ٹرسٹ‘ اور بہت سے ادارے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے ادارے انسانوں کی خدمت کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔
قحط بہت عجیب اور بڑی ہولناک چیز ہے۔ بعض اوقات افریقہ کے بھوک اور افلاس سے دوچار قحط کے مارے لوگوں بالخصوص بچوں کی تصویریں دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ ہر طرف بھوک سے مررہے ہیں، لیکن قحط کا ایسا منظر کم دکھائی دیتا ہے مگر جب اس طرح کی تصویریں سامنے آنے لگیں، تو پھر مدد عام طور پر انسانوں کو بچا نہیں سکتی۔ اس لحاظ سے یہ بات لازم ہے کہ ایسے خدشات سامنے آتے ہی انتظامات کرنے چاہئیں، تاکہ بھوک سے لوگ نہ مریں اور پاکستان میں یہ وقت اب آتا دکھائی دے رہا ہے، اللہ کرے ایسا نہ ہو!
بھوک کے مارے اور افلاس زدہ لوگوں کی بستیاں اکثر دور ہوتی ہیں، نظروں سے دور۔ مال روڈ کہیں ہوتا ہے اور جھگیاں کسی اورجگہ۔ اس طرح بیش تر خوش حال لوگوں کی نظروں کے سامنے اکثر بھوک نہیں آپاتی۔ جب 1943ء اور 44ء میں بنگال میں ہولناک قحط پڑا، تو قدرت اللہ شہاب  ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں:
[جب] میں کلکتہ پہنچ کر اترا تو چاروں طرف بنگال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بڑی کشادہ سڑکیں، دودھئی قمقموں کی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔ بازاروں میں دکانیں آراستہ و پیراستہ چمک دمک رہی تھیں۔ خوش پوش بنگالی کاروں، ٹیکسیوں، بسوں، ٹراموں، رکشوں میں اور پیدل ہنسی خوشی اِدھر ادھر آجارہے تھے… ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق بالکل اوجھل تھی، جو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سڑکوںپر، فٹ پاتھوں پر، گلیوں کوچوں میں، میدانوں میں بھوکے پیاسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہے تھے۔ زندگی کے دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ اس طرح رواں دواں تھے جیسے متوازی خطوط، جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔(ص157-158)
یاد رہے اس قحط میں 30 لاکھ سے زیادہ لوگ بھوک کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں کہ بنگال میں غلّہ موجود نہیں تھا۔ غلّہ موجود تھا مگر لوگوں میں اسے خریدنے کی طاقت نہیں تھی، وہ مالی اعتبار سے بے وسائل تھے۔
آج بھی روزانہ سات ہزار ہندستانی بھوک کے ہاتھوں مرجاتے ہیں، مگر ’جی 20 ‘والوں کو ان کی کوئی خبر بھی نہیں ہوگی۔ اجلاس کے انعقاد کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لئے 20 بستیوں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا اور جہاں مٹا نہ سکے، وہاں دیواریں کھڑی کردی گئیں کہ کسی کو ہندستان کی غربت کا پتہ نہ چلے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی صورتِ حال پیدا ہو۔
ہمارے ہاں داتا دربار جیسا لنگر تو ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، مگر مسجد تو ہرجگہ موجود ہے۔ غریب ترین بستی میں بھی مسجد ہوتی ہے۔ شاید مدرسہ بھی ہو یا کوئی اسکول بھی چل رہا ہو اور چھوٹا سا کوئی کلینک بھی کھلا ہو۔ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہرمسجد کے ساتھ، ہر مدرسے کے ساتھ، ہر اسکول یا ہر دواخانے کے ساتھ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو یا جھگی ہی کیوں نہ ہو کہ جہاں جن کو میسر ہے،جنھیں اللہ نے دیا ہے وہ لے آئیں، اور جنھیں کھانے کی ضرورت ہو وہ وہاں آ کر لے سکیں۔ یوں ہر مسجد اور مدرسے میں اور ہراسکول میں ایک چھوٹا سا لنگر بن جائے گا۔
کوئی بڑا ادارہ ایک ایسا گودام قائم کر سکتا ہے کہ جہاں لوگ اپنا غلہ، اپنی کاشت کی چیزیں اور خوردنی تیل وغیرہ جمع کرا سکیں۔ پورے شہر میں یہ معروف ہو کہ یہاں آپ خورو نوش کی اشیا جمع کرا سکتے ہیں۔ پھر مسجدیں، اسکول اور مستحق مدرسے وہاں سے وہ چیزیں لے کر جائیں تاکہ مستحق لوگ اپنے ہی محلے میں اس چیز کو حاصل کر سکیں۔
اس تجویز کو سادہ سمجھ کر نظرانداز نہ کریں کہ ’’یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی‘‘۔ اس پہلو سے ضرور سوچئے،ممکن ہے آپ کے ذہن میں کوئی اور اچھی عملی تجویز آجائے، لیکن یہ مسجدیں، مدرسے، کلینک ہر جگہ موجود ہیں۔ کسی حد تک وہ غریبوں کی خدمت کر ہی رہے ہیں۔ اگر ایک چھوٹا سا نظام اس کے ساتھ ایسا بھی بنا دیا جائے تو خدمت کا ایک اور نیا راستہ کھل سکتا ہے۔
جو ملک دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس بنا سکتا ہے، جو ملک امریکہ اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود جوہری بم بنا سکتا ہے، وہ غریبوں کے کھانے کا بھی ایسا نظام بنا سکتا ہے کہ غریب کو نہ مانگنا پڑے، نہ دھکے کھانے پڑیں لیکن اس کا پیٹ بھرتا رہے۔
الخدمت فائونڈیشن نے آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی جو خدمت کی تو امریکی مسلمانوں نے انھیں 3ارب سے زیادہ کا چندہ دیا۔ اگر الخدمت یا کوئی اور پاکستانی ادارہ غریبوں کو کھانا کھلانے کا کوئی نظام بنا دے تو یقین ہے کہ پاکستانی، پاکستان ہی میں اور دنیا بھر سے اس کام میں پورا پورا تعاون کریں گے۔
اس سے بڑھ کر اللہ کریم کو خوش کرنے کا شاید ہی کوئی اور ذریعہ ہو، جس نے فرمایا ہے کہ ’’ایک انسان کو بچانا ایسے ہے جیسے ساری انسانیت کو بچانا‘‘۔ ہر فرد کی جان قیمتی ہے اور اس کو بچانا بے پناہ اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ الماعون میں ارشاد فرمایا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم… ’’ تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے، جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں (107:1-5)
اس سورہ میں اللہ پاک نے حقوق العباد کا تذکرہ عبادت سے پہلے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی میں صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا شامل نہیں ہے، بلکہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے۔
25 لاکھ پاکستانی روز کی کمائی پر اس طرح انحصار کرتے ہیں کہ جو کمایا اسی دن کھایا اور اگلے دن کے لئے ان کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ معاشی حالات مزید بگڑتے جائیں گے، غربت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور قوت خرید کم ہوتی جائے گی۔ جو انسان ہماری نظر کے سامنے نہ ہو، وہ شاید بھوکا ہی اس دنیا سے گزر جائے، لہٰذا ہم سب کو اس جانب بھرپور اور فوراً پوری توجہ دینی چاہیے کہ کھانے کا نظام ایسا بنے کہ اللہ ہم سے خوش ہو اور اس کے بدلے میں ہماری دنیا کو بہتر بنائے، ہمارے رزق میں اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی توفیق دے اور ایسی جنت میں داخل کرے، جہاں ہم جو مانگیں گے، وہ پائیں گے!
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068
We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment