’لب پہ آتی ہے دعا‘ پڑھانے پر جیل مگر
پسِ آئینہ: سہیل انجم
ترپتا تیاگی، منجولا دیوی اور ہیما گلاٹی۔ بظاہر یہ تین نام اور تین شخصیات ہیں لیکن حقیقتاً تینوں ایک ہیں۔ ہاں وہ الگ الگ شہروں میں رہتی ہیں اور الگ الگ اسکولوں میں پڑھاتی ہیں لیکن ان میں جو ذہنی ہم آہنگی ہے وہ ان تینوں کو ایک بناتی ہے۔ ان تینوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ بظاہر اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں اور اپنے اپنے اسکولوں میں مسلم مخالف نفرت انگیزی کو ہوا دے رہی ہیں۔ ترپتا تیاگی کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے۔ ان کا ذکر ذرا آگے چل کر کریں گے۔ پہلے باقی دونوں دیویوں کا ذکر ہو جائے۔ منجولا دیوی کرناٹک کے شموگہ ضلع کے ٹیپو نگر کے ایک اردو سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ وہ اس اسکول میں گزشتہ نو برس سے پڑھا رہی ہیں اور ٹیچنگ کا چھبیس سالہ تجربہ رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی ذہنی خباثت اس وقت منظر عام پر آگئی جب انھوں نے پانچویں کلاس کے دو بچوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’تم لوگ پاکستان چلے جاؤ۔ ہندوستان تمھارا ملک نہیں ہے۔ یہ ہندوؤں کا ملک ہے‘۔ دراصل کلاس کے دوران دونوں بچے آپس میں لڑ پڑے تھے۔ جس پر انھوں نے اپنی نفرت انگیزی کا مظاہرہ کر دیا۔ جب بچوں نے اپنے گھر جا کر یہ بات بتائی تو والدین اور جنتا دل ایس کے ایک رہنما نذیر اللہ نے پولیس اور محکمہئ تعلیم میں شکایت کی جس پر ان کے خلاف رپورٹ درج کی گئی اور ان کا تبادلہ دوسرے اسکول میں کر دیا گیا۔ ابتدائی پوچھ تاچھ میں انھوں نے اپنی اس حرکت کو جواز کا جامہ پہناتے ہوئے کہا کہ وہ بچے شور کر رہے تھے۔ وہ ان کا احترام نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے وہ بچوں کو نظم و ضبط سکھا رہی تھیں۔ واہ! کیا بچوں کو اس طرح نظم و ضبط سکھایا جاتا ہے۔ بہرحال ان کے خلاف کوئی ایسی خاص کارروائی نہیں کی گئی کہ وہ آگے اس قسم کی نفرت انگیزی کرنے سے باز رہیں۔ حالانکہ اگر ایسی کوئی حرکت کسی مسلم ٹیچر سے ہوئی ہوتی تو یقین ہے کہ یا تو اس کی نوکری ختم ہو گئی ہوتی یا وہ جیل میں ہوتا۔
اب آئیے ہیما گلاٹی کی طرف۔ وہ گاندھی نگر دہلی کے ایک سرکاری اسکول ’سروودے بال ودیالیہ‘ میں ٹیچر ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں چار مسلم بچوں سے کہا کہ ان کے گھر والے 1947 میں پاکستان کیوں نہیں چلے گئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو آزادی دلانے میں مسلمانوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اسلام، قرآن اور خانہئ کعبہ کے بارے میں توہین آمیز باتیں بھی کیں۔ جب ان بچوں نے اپنے گھر جا کر یہ بات بتائی تو گھر والوں کی شکایت پر ان کے خلاف رپورٹ درج کر لی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ جبکہ بچوں کے والدین کا مطالبہ ہے کہ اس ٹیچر کو ملازمت سے برخاست کیا جائے تاکہ تو وہ آگے اس قسم کی حرکت نہ کرے۔ لیکن اس کے خلاف تادم تحریر ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ ہم پھر یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کسی مسلم ٹیچر نے ہندو بچوں سے کہا ہوتا کہ یہ تمھارا ملک نہیں ہے، تم کسی اور ملک میں چلے جاؤ تو کیا اس وقت اس کے خلاف بھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوتی۔ اب آئیے ترپتا تیاگی کی طرف۔ قارئین کو تو یہ معلوم ہی ہے کہ وہ مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول کی پرنسپل ہیں اور انھوں نے گزشتہ دنوں ایک مسلم بچے کو ہندو بچوں سے تھپڑ لگوائے تھے۔ جب اس معاملے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تو ان کے خلاف پولیس نے رپورٹ درج کی اور محکمہئ تعلیم نے ان کا اسکول بند کر دیا۔ لیکن محترمہ کو اپنی اس حرکت پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں معذور ہوں چل نہیں سکتی اس لیے دوسرے بچوں سے میں نے اسے سبق سکھانے کو کہا۔ لیکن انھوں نے جس مذہبی منافرت کا مظاہرہ کیا اس پر انھیں کوئی ندامت نہیں ہے۔ اگر وہ معذور ہیں اور اٹھ کر بچے کو سزا نہیں دے سکتی تھیں تو کیا وہ بچے کو اپنے پاس بلا کر اس کو تھپڑ نہیں لگا سکتی تھیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ہندو بچہ ہوم ورک نہیں کرتا ہے تو کیا وہ اس کو بھی دوسرے مذہب کے بچوں سے پٹواتی ہیں۔ دراصل ان تینوں واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک میں نفرت کی جو آندھی چلائی جا رہی ہے اس نے کہاں کہاں اور کس کس طرح زہر پھیلا دیا ہے۔ ان تینوں کے خلاف پولیس جانچ کر رہی ہے۔ لیکن کیا ان کو بھی وزیرالدین کی طرح جیل جانا اور ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ جانچ چلتی رہے گی اور پھر رفتہ رفتہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو منظرعام پر آگئے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، جہادی اور پاکستانی کہنا عام بات ہے۔
لیکن وزیر الدین کا کیا قصور تھا کہ ان کی ملازمت بھی چلی گئی اور انھیں جیل میں بھی رہنا پڑا۔ یہ وزیر الدین وہی ہیں جن کو بریلی کے ایک اسکول میں علامہ اقبال کی دعا ’لب پہ آتی‘ پڑھوانے کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ وہ شکشا متر یعنی عارضی ٹیچر تھے۔ گزشتہ سال دسمبر میں ہندو تنظیموں کے کارکنوں نے پولیس میں شکایت کی کہ وہ اپنے اسکول میں ہندو بچوں کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔ مذہب کیسے تبدیل کروا رہے ہیں؟ ایسے کہ وہ ایک ایسی دعا پڑھوا رہے ہیں جس میں بھگوان کی جگہ اللہ کہا گیا ہے۔ بس کیا تھا۔ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جبکہ اس دعا میں کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں کہ انھیں کوئی سزا دی جاتی۔ برائی سے بچنے کی دعا کرنا کہاں سے تبدیلی مذہب کرانا ہو گیا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اب انتظامیہ کے لوگ بھی ہندوتو نواز عناصر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر وہ کام کرنے لگے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔ دراصل موجودہ سیاسی و سماجی ماحول نے ملک میں جو زہر گھولا ہے یہ سب اسی کے نتائج ہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہے جس میں پانچ سے دس سال تک کے بچے گروپ بنا کر بیٹھے ہیں اور ایک بچہ مسلمانوں کے خلاف ایسی زہریلی باتیں کر رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ابھی سے ان بچوں کا ذہن ایسا مسموم کر دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے تعلق سے کوئی اچھی بات سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہیں کہ ٹیچر خود بچوں سے وہی نعرہ لگوا رہے ہیں جو دہلی الیکشن کے دوران مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے لگایا تھا اور جس میں گولی مارنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ زہر صرف پرائمری اسکولوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کالجوں تک بھی پہنچ گیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کرناٹک کے اڈوپی میں واقع منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایک پروفیسر نے ایک مسلم اسٹوڈنٹ کو اجمل قصاب کہا تھا۔ پروفیسر نے کلاس کے دوران ایک اسٹوڈنٹ سے اس کا نام پوچھا اور مسلم نام سنتے ہی کہا اوہ تم تو قصاب کی طرح ہو۔ اس پر اسٹوڈنٹ نے احتجاج کیا اور کہا کہ سر آپ ہمارے مذہب کے بارے میں ایسی توہین آمیز بات نہیں کہہ سکتے۔ اس پر پروفیسر نے کہا سوری تم میرے بیٹے جیسے ہو۔ اس پر طالب علم نے پوچھا کہ کیا آپ اپنے بیٹے کو ایک دہشت گرد کے نام سے پکار سکتے ہیں۔ اس نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر طالب علم نے کہا کہ تو پھر آپ مجھے اتنے لوگوں کے سامنے ایک دہشت گرد کے نام سے کیوں پکار رہے ہیں۔ آپ ایک استاد ہیں۔ آپ کے سوری بول دینے سے آپ کی ذہنیت نہیں بدل جائے گی۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انتظامیہ نے پروفیسر کو معطل کر دیا۔ بعد میں اسٹوڈنٹ نے ایک ویڈیو بیان جاری کرکے کہا کہ ’معاملہ اب ختم ہو گیا ہے‘۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب تک نفرت انگیزی کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی نہیں ہوگی ایسے معاملات ختم نہیں ہو گے بلکہ دن بدن بڑھتے رہیں گے۔ جن بچوں کو اسکولوں میں نفرت کا انجکشن لگایا جا رہا ہے وہ جب بڑے ہو کر حکومت و انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے اور سیاہ و سفید کے مالک بنیں گے تو ان کے فیصلے ملک کو کس سمت میں لے جائیں گے یہ سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔