‘بھارت ممکنہ طور پر عظیم قوت بن جائے گا’، مغربی ممالک اس تعلق سے سنجیدہ پیشن گوئیاں کر رہے ہیں: مارٹن وولف
نئی دہلی، 20 جولائی:معروف ماہر اقتصادیات و مبصر مارٹن وولف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ مغربی قائدین بھارت کے سلسلے میں سنجیدہ پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت دراصل ممکنہ طور پر ایک ابھرتی ہوئی عظیم قوت بن جانے کے امکانات کا حامل ملک ہے اور اس کی معیشت 2050 تک امریکہ کی معیشت کے حجم کے مساوی ہو جائے گی۔
مسٹروولف نے فائننشل ٹائمز میں تحریر کردہ ایک کالم میں کہا ہے کہ ”میرا نظریہ یہ ہے کہ بھارت کو ایک سال میں یا اس سے بھی آگے فی کس 5 فیصد کے بقدر جی ڈی پی نمو برقرار رہنے کا اہل ہونا چاہئے اور یہ سلسلہ 2050 تک جاری رہنا چاہئے۔ بہتر پالیسیوں، نمو کے ساتھ یا اس سے بھی زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ نسبتاً کم ہو سکتی ہے۔ ”
انہوں نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ بھارت چائنا پلس ون حکمت عملی پر عمل کرنے والی کمپنیوں کے لیے ایک واضح مقام ہے، اور ایک بڑی گھریلو منڈی کے واضح مسابقت کاروں پر بالادستی کا حامل ملک ہے۔ بھارت دنیا کی پانچویں وسیع تر معیشت ہے اور قوت خرید کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ اقوام متحدہ نے پیشن گوئی کی ہے کہ اس ملک کی آبادی 2050 تک 1.67 بلین تک پہنچ جائے گی اور فی الحال یہ آبادی 1.43 بلین کے بقدر ہے۔
وولف نے زور دے کر کہا ہے کہ ملک کی بینک بیلنس شیٹوں کو ٹھیک کر لیا گیا ہے اور مجموعی طور پر قرض انجن ایک مرتبہ پھر اچھی حالت میں آگیا ہے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس ملک کی آبادی اور معیشت کے بارے میں تیز رفتار نمو آئندہ دہائیوں میں وقوع پذیر ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے، جو چین کے مدمقابل ہوگی اور اسے پیچھے چھوڑ دے گی، وولف نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مغربی ممالک کے قریبی تعلقات نیک شگون ہیں۔
کسی زمانے میں پابندی کے شکار نریندر مودی کے ساتھ جو بائیڈن کا گرمجوشانہ معانقہ اس کا غماز ہے کیونکہ اب وہ بھارت کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ واشنگٹن نے اور پیرس میں اسی گرمجوشی کے ساتھ ایمانوئل میکخواں نے جس طرح ان سے معانقہ کیا اس سے اس ملک کے ساتھ ان کے قریب ہوتے ہوئے تعلقات کے مقصد کا اظہار ہوتا ہے جو چین کو اثر و رسوخ کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ کیا یہ مغربی قوتوں کے لیے اچھی پیشن گوئی ہے؟ ہاں، بھارت دراصل ایک ابھرتی ہوئی عظیم قوت بن جانے کے امکان کا حامل ملک ہے۔ مفادات بھی ایک دوسرے کوآپس میں وابستہ کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک اقدار کا سوال ہے اور انہیں ساجھا کرنے کی بات ہے، وہ ایک زیادہ کھلا ہوا سوال ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 2023 سے لے کر 2028 کے درمیان 6 فیصد سے تھوڑا زائد کی سالانہ نمو کی پیشن گوئی کی ہے اور فی کس جی ڈی پی نمو موٹے طور پر ایک فیصد مزید تخفیف کی حامل ہوگی۔ اس طرح کی نمو گذشتہ تین دہائیوں کی اوسطوں کے قریب ہوگی، شرط یہ ہے کہ ملک بڑے عالمی یاگھریلو صدموں سے دوچار نہ ہو۔ یہ کلی طور پر عملی محسوس ہوتا ہے، یہاں تک کہ قابل ستائش بھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس ملک کے پاس ابھی مواقع سے استفادہ کرنے کے بڑے امکانات موجود ہیں۔یہ ایک نوجوان ملک بھی ہے، مجموعی طور پر ناکافی لیبر فورس کے ساتھ، اس لیبر فورس کی عمدگی کو بہتر بنانے کے امکانات اور مضمرات موجود ہیں، ایک واجبی اعلیٰ پیمانے کی کفایتی شرح اور افزوں عام امیدیں ہیں جو فزوں تر خوشحالی سے وابستہ ہیں۔مزید برآں ، وولف نے کہا کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر تطبیق درکار ہوگی، شرط یہ ہے کہ عالمی اخراج کے معاملے میں جو ناکامی ہوئی ہے اسے کم کیا جائے۔ تاہم توانائی تغیر بھی بھارت کو وسیع تر مواقع فراہم کرتا ہے۔
سنہ 2050 تک، بھارت کی جی ڈی پی فی کس (قوت خرید کی بنیاد پر)امریکی سطحوں کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد کے بقدر ہو جائے گی۔ موٹے طور پر جہاں آج چین موجود ہے، وولف نے اس تصور کو بنیاد بناکر کہا کہ ملک کی جی ڈی پی فی کس اب بھی ایک سال میں 5 فیصد کی نمو کے لحاظ سے جاری ہے جبکہ امریکہ 1.4 فیصد کی نمو کا حامل ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی پیشن گوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے وولف نے کہا کہ بھارت کی آبادی امریکہ کے مقابلے میں 4.4 گنا زیادہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ، ”اس لیے اس کی معیشت امریکہ کے مقابلے میں 30 فیصد سے کہیں زیادہ ہوگی۔ مختصر طور پر یہ بات تصور کرنا واجب ہے کہ بھارت ایک عظیم قوت بن جائے گا۔ یہ بات تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس کی معیشت 2050 تک امریکہ کی معیشت کے مماثل حجم کی معیشت بن جائے گی۔ اس طرح سے مغربی قائدین بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کے لحاظ سے روابط قائم کر رہے ہیں اور سنجیدہ پیشن گوئی کر رہے ہیں۔”
بدھ کے روز عالمی بینک کے صدر اجے بانگا جو فی الوقت بھارت کے دورے پر ہیں، نے کہا کہ گھریلو کھپت ملک کی معیشت کو عالمی مندی کے بالمقابل ایک فطری دفاع فراہم کرتی ہے کیونکہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ مقامی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔