اردو سے ڈاکٹر احمد تنویر کا غیر پیشہ ورانہ رشتہ قابلِ رشک: ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی
مشہور تعلیمی اور ثقافتی تنظیم ’دی ونگس فاؤنڈیشن ‘ کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر احمد تنویر کے اعزاز میں شعری نشست
۳۰؍ جنوری (نئی دہلی): ڈاکٹر احمد تنویر سے مل کر مجھے یک گونہ قربت کا احساس ہوا۔ ان کے کلام میں نفاست اور لطافت کے ساتھ ایک نوع کی جدت متاثر کن ہے۔ اردو سے ان کا غیر پیشہ ورانہ تعلق بھی قابلِ رشک ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر احمد تنویر کے اعزاز میں مشہور تعلیمی اور ثقافتی تنظیم ’دی ونگس فاؤنڈیشن‘ کے زیر اہتمام منعقدہ شعری نشست کے صدارتی کلمات میں ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے کیا۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ اردو سے جن لوگوں کا تعلق روزی روٹی کا ہوتا ہے ، اردو کے لیے کام کرنا تو ان کا فرض منصبی ہے، لیکن ڈاکٹر احمد تنویر ان لوگوں میں ہیں جو سائنس کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا اردو کے لیے ان کی جو بھی سرگرمیاں رہی ہیں وہ اردو کی سچی اور بے لوث خدمت ہے۔ اعزازی نشست کے کنوینر ڈاکٹر عادل حیات نے صاحبِ اعزاز کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر احمد تنویر اسّی اور نوّے کی دہائی میں مظفرپور کے ادبی حلقے میں نہایت فعال رہے اور انھوں نے مشہور ادیب، ترجمہ نگار اور اسکالر پروفیسر انیس الرحمن کے ساتھ شان دار سیمیناروں اور مشاعروں کا انعقاد کیا۔ حالاں کہ درمیان میں وہ ادبی دنیا سے بوجوہ کنارہ کش رہے لیکن اب دوبارہ اردو زبان و ادب سے ان کا شغف بحال ہورہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب عبدالرحمٰن کی تلاوت سے نشست کا آغاز اور دی ونگس فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر انوارالحق کے اظہارِ تشکر پر اختتام ہوا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے۔ ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر انوار الحق اور ڈاکٹر خالد مبشر نے بالترتیب ڈاکٹر احمد تنویر، پروفیسر شہپر رسول اور ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی کا گلدستے سے استقبال کیا۔ شعری نشست میں ڈاکٹر احمد تنویر، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر ابوبکر عباد، احسان قاسمی، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر امتیاز رومی، ڈاکٹر سلمان فیصل، سفیر صدیقی اور ڈاکٹر زاہد ندیم احسن نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی، عبدالباری صدیقی، شبانہ ناز اور شفق کمال کے علاوہ بڑی تعداد میں سامعین موجود تھے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
اب نہ خوش بو سے بھرے خط ہیں نہ مہکی ترسیل
مٹ گئی جب سے ہتھیلی کی حنائی ترسیل
احمد تنویر
وہ جو دنیا سے غمِ دل کو چھپائے ہوئے ہیں
زندگی کرنے کے کچھ راز بھی پائے ہوئے ہیں
سہیل احمد فاروقی
اک وہی بات، برا کہتے ہیں جس کو ہم سب
خوب ہم سب میں روا ہے، یہ عجب سا سچ ہے
شہپر رسول
وہ ساغر و مینا جام و سبو، وہ خم وہ صراحی وہ شیشہ
میں مے کش پیاسا، تشنہ بہ لب ، سرشار نہ ہوتا کیا کرتا
ابوبکر عباد
پونچھ ڈالے آنسوؤں کو ہر لب و رخسار سے
روتے بچوں کو ہنسا دے اک غزل ایسی بھی ہو
احسان قاسمی
فلسفے سب زندگی کے سب صحیفے ہر کتاب
حرف و قرطاس و قلم سب رائیگاں سب رائیگاں
عادل حیات
یہ خواب یہ خیال یہ خواہش یہ حسرتیں
یعنی بہت غبار ہے میرے وجود میں
خالد مبشر
کہنے کو زندگی ہے مگر موت ہی تو ہے
جب جان ہے تو ٹھوکریں در در کی کھائیے
امتیاز رومی
منزلِ وصل کی فصیلوں پر
ہجر کی سخت پاسبانی ہے
سلمان فیصل
میں تھک گیا تو بھی جاری رہے گا نغمۂ زیست
کہ جسم کرتا رہے گا مرا بچا ہوا رقص
سفیر صدیقی
ریت ہی ریت تھی پھیلی ہوئی تا حدِ نظر
تشنگی کہتی تھی آگے کوئی دریا ہوگا
زاہد ندیم احسن