کیا جامعہ برادری اپنے محسنین کو فراموش کر چکی ہے؟
مرشد کمال
(سابق نائب صدر جامعہ طلباء یونین، بین الاقوامی کنوینر ، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی)
ہندستان کے تیسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کا شمار جامعہ کے بانیان میں ہوتا ہے۔ آپ دو دہائیوں سے زیادہ جامعہ کے شیخ الجامعہ کے منصب پر فائض رہے۔ آپ نے اپنے خون جگر سے اس دانش گاہ کو سینچا ہے ۔ جامعہ آپ کی زندگی کا مقصد تھی۔ جب تحریک عدم تعاون اور خلافت تحریک کے خاتمے پر کچھ حلقوں کی جانب سے جامعہ کے وجود کو بلا جواز بتا کر اسے بند کردینے کی وکالت شروع کردی گئی تو یہ ڈاکٹر ذاکر حسین ہی تھے جنھوں نے اس کی سخت مخالفت کی اور اپنے احباب کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ کسی بھی حالت میں جامعہ کو بند نہ ہونے دینگے اور ۲۰ سالوں تک جامعہ کا ساتھ نہ چھوڑ ینگے۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ کس جانفشانی اور جگر سوزی کے ساتھ ذاکر صاحب نے اس چمن کی آبیاری کی۔ گزشتہ دنوں ۸ فروری کو اس عظیم قومی دانش گاہ کے اسی محسن کی یو م پیدائش تھی۔ جامعہ کی یہ روایت رہی ہے کہ ہر سال اُن کی یوم پیدائش اور یوم وفات کے موقع پر ارباب جامعہ خصوصآ شیخ الجامعہ، نائب شیخ الجامعہ اور اہم عہدوں پر فائض دیگر ذمہ داران اُن کی آخری آرام گاہ پر حاضری دیتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ سلسلہ منقطع ہو چکا ہے ۔ موجودہ شیخ الجامعہ پروفیسر نجمہ اختر اور ان کی انتظامیہ کے کسی فرد کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اپنے دفتر سے چند قدموں کے فاصلے پر وقوع پزیر ذاکر صاحب کے مقبرے پر تشریف لے جاتے۔ وہ تو بھلا ہو جامعہ مڈل اسکول کے چند اساتذہ اور بچوں کا جنھوں نے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی دعا اور قرائت کلام ربانی کا اہتمام کیا اور ملک و قوم کے اس عظیم معمار کو خراج عقیدت پیش کیا۔
لیکن ذاکر صاحب سے لا تعلقی اور اُن کے کارناموں کو فراموش کئے جانے کا قصوروار محض جامعہ کے انتظامیہ کو ٹھہرا کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے پلہ نہیں جھاڑ سکتے۔ یہ ہماری قومی اور ملی بے حسی اور سرد مہری کا آئینہ دار بھی ہے۔ خود جامعہ کے طلباء ، اساتذہ ، الیومنائی اور جامعہ سے متعلق تنظیمیں بھی اس غفلت اور لاتعلقی میں برابر کی شریک ہیں ۔ جامعہ کے گردو نواح میں مسلمانوں کی کثیر آبادی بستی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندستانی مسلمانوں کا بہترین دماغ جامعہ نگر علاقے میں قیام کرتا ہے ۔اس علاقے میں مسلم تنظیموں کے بڑے بڑے دفاتر موجود ہیں۔ ان تنظیموں کے سربراہان ، عمائدین ملت اور بڑی بڑی جبہ و دستار والی ہستیاں شب و روز اس راستے سے گزرتی ہیں لیکن کبھی کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ قوم کے اس ہیرو کی خدمت میں سلام پیش کر جائیں اور اُن کے بلندئ درجات کے لیے دو چار کلمات ادا کر جائیں۔ لیکن مایوسی اور بے حسی کے اس عالم میں جامعہ مڈل اسکول کے وہ اساتذہ قابل تعریف ہیں جنھوں نے نہ صرف ذاکر صاحب کو یاد رکھا بلکہ جامعہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسکول کے بچوں کو بھی لیکر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے بلندئ درجات کی دعائیں کیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زندہ قومیں اس طرح اپنے محسنین اور معمار ان قوم فراموش کر دیتی ہیں ؟ صرف ذاکر ہی صاحب کیوں۔ مولانا آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، حکیم اجمل خان , ڈاکٹر مختار احمد انصاری، پروفیسر محمد مجیب ، پروفیسر عابد حسین اور ان جیسی نہ جانے کتنی نابغئہ روزگار ہستیاں ہماری لاتعلقی اور بے اعتنائی کا شکار ہوکر تاریخ کے دھندلکوں میں کھو چکی ہیں۔ اب نہ کسی کو اُن کے جائے پیدائش کا علم ہے نہ جائے وفات کا۔ اُن کے کارنامے تو ہم فراموش کر ہی چُکے ہیں ۔ ان کی ایام پیدائش اور ایام وفات آکر گزر جاتی ہیں اور ہمیں اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔
قوم کے بہتر مستقبل کی فکر میں اپنی زندگیاں کھپا دینے والے ، جن کی شبانہ روز عرق ریزی نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرسکیں ، کیا ہمارے اسی روئیے اور سلوک کے حقدار ہیں؟ ، سوچئے گا ضرور۔