سر سید احمد خان : قربانیوں کا دوسرا نام
………………..
’’میں اس وقت ہر گز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی، جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتاتھا۔ چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بوڑھا کردیا اور میرے بال سفید کردیے ‘‘۔
…………………….
سرسید احمد خاں نے دسمبر 1888 میں مسلمان طلباء پنجاب کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: ’’ یہ میری آرزو ہے کہ میں اپنی قوم کے بچوں کو آسمان کے تاروں سے اونچا اور سورج کی طرح چمکتا ہوا دیکھوں ‘‘۔
……………………..
ایک بار کسی شخص نے انہیں نہایت محبت و عقیدت سے ایک پینٹنگ پیش کی ۔ سرسید احمد خان نے اسے بازار میں فروخت کرکے رقم علی گڑھ کالج کے چندے میں جمع کر دی اور انہیں رسید بھجوا دی۔علاقے کے ایک رئیس نے سرسید کو کھانے کی دعوت دی تو سرسید نے پوچھا کہ جناب عالیٰ۔اس پر کتنا خرچ ہو گا مہربانی فرما کر اتنی رقم علی گڑھ کالج کے لئے بطور چندہ دے دیں بس یہی میری دعوت ہے ۔ لاہور کے ایک زندہ دل نے اپنی روائتی زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ٹوٹے ہوئے جوتے چندے میں بھجوا دیئے ۔سرسید نے انہیں مرمت کرا کر بازار میں بیچاحاصل ہونے والی رقم کی رسید بھجوا کر زندہ دلی کے منہ پر خلوص اور لگن کا طمانچہ مار دیا۔ ایک جلسہ عام میں چندہ اکٹھا کرنے کے لئے تقریر کر رہے تھے تو حاضرین کی بے رخی دیکھ کر کہا ”مجرا سننے جاتے ہو تو جیبیں خالی کرکے لوٹتے ہو، قوم کے نام پر سرد مہری اختیار کئے ہوئے ہو “حاضرین میں سے ایک زندہ دل نے فقرا کسا۔ آپ بھی مجرا کرکے دکھا دیں تو ہم جیبیں خالی کر دیں گے ۔ سفید نورانی ریش مبارک کے ساتھ سرسید نے اپنی قمیض شلوار میں ڈالی اور اسٹیج پر ناچنا شروع کر دیا ۔بس پھر کیا ہوا کہ لوگوں کے پاس جو کچھ تھا سرسید کی جھولی میں ڈال دیا۔
……………………….
کالج کے لیے روپیہ اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ انہوں نے اٹھا نہ رکھا۔کتابوں کی دکان کھولی اور اس میں بیٹھ کرکتابیں بیچیں۔ ایک بار تیس ہزار کی لاٹری کھلی، اعتراض ہوا یہ گناہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہزار گناہ اپنے لیے کرتے ہیں ایک گناہ کالج کے لیے بھی سہی۔
……………………
مختلف تحریروں سے ماخوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍🏻تالیف : خالد مبشر
دہلی