تشدد پھیلانے والی تنظیمو ں پر لگنی چاہئے پابندی
نئی دہلی۔تشدد اور دہشت گردی کو مذہب، قومیت یا کسی خاص گروہ سے نہیں جوڑا جا سکتا اور دہشت گردی اپنی تمام شکلوں اور نظریات جیسے کہ خودکش حملے اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی مت کسی نام نہاد تنظیم کے نظریے کو نہیں بدل سکتا لیکن اس تنظیم کے لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے! ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم اسلام کے نام پر کسی بھی ناانصافی یا پرتشدد واقعے کو بچانے کی کوشش نہ کریں، یہ اسلام اور مسلمان دونوں کے لیے مہلک ہوگا۔ان خیالات کا اظہار حافظ غلام سرور نے کیا۔
انھوں نے کیا کہ دنیا بھر میں معاشرہ پرتشدد اسلام کے بارے میں منفی رویہ رکھتا ہے، بشمول مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک میں۔ ستمبر 2014 میں واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹ پالیسی کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کو بڑے اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب، کویت، یو اے ای سے حمایت نہیں مل رہی ہے۔ ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک میں مسلم آبادی کی اکثریت ہے وہاں کے لوگ بھی اسلامی انتہا پسندوں اور اسلامی شدت پسند تنظیموں القاعدہ، حماس، بوکو حرام اور حزب اللہ کی مخالفت کرنے والوں سے ناخوش ہیں۔ جب پوری دنیا کے مسلمان اسلامی انتہا پسندی کی خلافت میں مصروف ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس سمت میں پیچھے کیوں ہیں؟
ہندوستانی مسلمان تمام مذہبی اور دیگر معاملات میں اپنے پرامن رویے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف پی ایف آئی پورے ملک میں زہر اگل رہی ہے وہیں دوسری طرف زیادہ تر مسلم سماج کو شاید امید ہے کہ یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا جس سے سماج میں کہیں نہ کہیں یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ مسلمانوں کا معاشرہ چھپ کر ان کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ شاید یہی ایک وجہ ہے کہ اس ایک عمل نے نہ صرف ہندوستانی مسلمان کو بدنام کیا بلکہ اس سے اسلام کو بھی نقصان پہنچا۔ اسلام سے نفرت کرنے والوں نے پی ایف آئی کی کارروائیوں جیسے بنگلور تشدد، ہاتھ کاٹنا، انتقامی قتل وغیرہ کو اسلام کی تعلیمات سے جوڑ دیا۔جب معاشرے میں مسلمانوں کے ہر عمل کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے تو مسلمان علماء کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسلام اور انتہا پسند تنظیموں کے درمیان فرق کو واضح طور پر بیان کریں، ساتھ ہی مسلم معاشرہ کو بھی آگے بڑھ کر ان کا آئینہ دکھانا چاہیے۔اور جتنی بھی تشدد پھیلانے والی تنظیمیں ہیں اسپر پابندی لگنی چاہئے۔