معصوم مرادآبادی
قدآورصحافی احمدسعید ملیح آبادی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔ انھوں نے ایک ایسے دور میں آنکھیں موندی ہیں جب اردو زبان اور اس کی صحافت کو سخت آزمائشوں کا سامنا ہے۔یہ آزمائشیں زبان، ذہن اور ضمیر تینوں سطحوں پر ہیں۔
احمد سعید خان کی پیدائش1926 میں یوپی کے مردم خیزخطہ ملیح آبادمیں ہوئی تھی اور وفات 2 اکتوبر 2022 کو لکھنومیں ہوئی۔ ان کی صحافتی زندگی کاآغاز 1947کے پرُ آشوب دور میں میں ہوا تھا ۔کم وبیش چھ دہائیوں تک انھیں کلکتہ کی اردو صحافت میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل رہی۔وہ ایک دور اندیش، معاملہ فہم اور صراط مستقیم پر چلنے والے صحافی تھے۔کبھی کسی سے خوفزدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی حالات کے آگے سپرڈالی۔ 2008 میں راجیہ سبھا کا ممبرچنے جانے کے بعد ان کے اخبار کی اشاعت متاثر ہوئی اور آخرکار2010 میں اسے بند کرناپڑا۔ ان کے بقول ’آزادہند‘ کی اشاعت بند ہونے کا اثر ان کی صحت پرہوا اور وہ بیمار رہنے لگے۔کلکتہ میں ان کے ہم عصر صحافیوں میں سالک لکھنوی، رئیس الدین فریدی، سیدمنیرنیازی اور محمدوسیم الحق کے نام قابل ذکر ہیں۔
کلکتہ اس ملک میں تمام زبانوں کی صحافت کی ’جنم بھومی‘ ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے مغربی بنگال اردو اکادمی نے کلکتہ میں اردو صحافت کا دوسوسالہ جشن بڑی آن بان اور شان کے ساتھ برپا کیاتھا۔ میں جب بھی کلکتہ جاتا تو احمدسعید ملیح آبادی کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ اس بار میری نظریں انھیں تلاش کرتی رہیں، مگر وہ کہیں نظر نہ آئے۔ 2018میں جب بنگال اردو اکیڈمی نے اردو ایڈیٹرس کی آل انڈیا کانفرنس منعقد کی تھی تو اس وقت وہ کلکتہ ہی میں تھے اور تین دن ہم نے ساتھ ساتھ گزارے تھے۔اس موقع پر ان کے دولت خانے پر بھی حاضری ہوئی تھی۔لیکن اب وہ کلکتہ چھوڑ کر اسی ملیح آباد میں آبسے تھے، جہاں ان کی پیدائش وپرداخت ہوئی تھی۔ اکثر خیریت دریافت کرنے کے لیے وہ خود ہی فون کرتے تو مجھے شرمندگی ہوتی کہ میں نے کئی ہفتوں سے انھیں فون کیوں نہیں کیا ۔ میں نے ایک دن پوچھاکہ آخر انھوں نے اس کلکتہ کو کیوں چھوڑدیا، جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گزراتو انھوں نے جواب دیا”بھئی اس بڑھاپے میں لوگوں نے ہمیں اپنی محفلوں کا مستقل صدر بنالیا تھا ۔جب بھی اردو کی کوئی تقریب ہوتی تو صدارت کا قرعہ فال ہمارے ہی نام نکلتا ہے اور اس میں خاصی زحمت اٹھانی پڑتی ہے“۔ واقعی یہ ان کے لیے زحمت کاکام تھا۔ وہ کلکتہ کی جس بلڈنگ میں مقیم تھے وہ اونچی عمارت تھی، جس کی تیسری منزل پر ان کا مکان تھا۔ ظاہر ہے تیسری منزل پر چڑھنا اور اترنا ان کے لیے بڑی آزمائش کا کام تھا، پھرگھنٹوں صدارت کی کرسی پر بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ اسی بناء پر انھوں نے کلکتہ کو چھوڑا، لیکن کلکتہ انھیں نہیں چھوڑسکا۔ اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کو وہ خود ہی فون کرکے ان کی خیریت دریافت کرتے تھے۔
اردوصحافت میں احمدسعید ملیح آبادی نے جس وجہ سے حددرجہ اعتبار اور احترام حاصل کیا،وہ ان کی اداریہ نویسی کا فن تھا۔وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے اس کو امر کردیتے تھے۔ عام طورپر اردو اخبارات میں جو ادارئیے لکھے جاتے ہیں، ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ قاری کی جذباتی تسکین کا سامان ہوں، لیکن احمدسعید ملیح آبادی نے یہ کام کبھی نہیں کیا۔وہ اپنے اداریوں میں وہی لکھتے تھے جسے درست خیال کرتے تھے، چاہے ان کا قاری ناراض ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اخبار’ملت کا ترجمان‘ ہونے کی بجائے دوراندیشی اور حقیقت بیانی کا شاہکار تھا اور انھوں نے جب تک بھی ’آزادہند‘ میں ادارئیے لکھے، اسی ترنگ کے ساتھ لکھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کلکتہ شہر میں ان کے مخالفین کی تعداد حامیوں سے زیادہ تھی۔ان کے ہم عصر صحافی سید منیرنیازی کے لفظوں میں:
”اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کلکتہ کی اردو صحافت میں سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت کون ہے تو میرا جواب ہوگا،احمدسعیدملیح آبادی۔آپ میرے خیال سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کلکتہ کی اردو دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو کسی نہ کسی وجہ سے سعید صاحب سے شکایت ہے، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ شکایتیں شخصی کم اور نظریاتی زیادہ ہیں۔دراصل ہردور میں ذہین افراد کی شخصیت متنازعہ رہی اور اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی کہ ایسے لوگوں کا انداز فکر عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ہجوم میں رہ کر بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔وہ پٹی پٹائی راہوں پر چلنے کی بجائے اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔وہ ہنگامی اور بحرانی دور میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے گائڈ ہوتے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت وہ وقتی فائدے کونظرانداز کرکے اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے اور اس سے ملک وقوم کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ ساری خوبیاں سعید صاحب کی ذات میں یکجا ملتی ہیں۔“(ماہنامہ ’انشاء‘ کلکتہ، احمدسعید ملیح آبادی نمبرص39)
مجھے بارہا احمدسعید ملیح آبادی کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ وہ میرے ساتھ حددرجہ شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ 2013میں شائع ہوئی میری کتاب ’اردو صحافت کا ارتقاء‘پر انھوں نے جو سیرحاصل مقدمہ لکھا ہے، وہ اس تعلق کا ثبوت ہے۔ جب پہلی بار کلکتہ حاضری ہوئی تو مجھے ’آزادہند‘ کا دفتر اور سعید صاحب کو کام کرتے ہوئے دیکھنے کی تمنا تھی۔ وہ ’آزادہند‘ کے ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ اس کے مالک بھی تھے۔ میں ان کا دفتر تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچا تو میرے قدم ان کے کمرے کی طرف بڑھے، جو قیمتی کتابوں اور ایوارڈوں سے مرصع تھا۔ ہر ایڈیٹر کی طرح ان کی بڑی سی میز بھی کاغذوں سے لبالب تھی۔ مگر سعید صاحب اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔ میں نے مڑ کردیکھاتووہ اپنے ادارتی عملہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے اداریہ کی نوک پلک درست کررہے تھے۔اس دوران جو سب سے قیمتی بات انھوں نے مجھے بتائی وہ یہ تھی کہ”نثر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنی تحریر کو جتنی بار پڑھیں گے، اتنی ہی مرتبہ اس میں ترمیم کریں گے، مگر شاعری کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ معمولی ردوبدل کے بعد شعرمکمل ہوجاتا ہے۔“
احمدسعیدملیح آبادی کو اپنے اداریوں کی ہی وجہ سے وہ مقام حاصل ہوا تھا، جس کی بناء پر وہ اپنے عہد کے سب سے قدآور صحافی کہلائے۔ اداریہ ہی دراصل اخبار کا ضمیر ہوتا ہے، جو اشاعت کے بعد قوم کا ضمیر بن جاتا ہے۔سعید صاحب کے اداریوں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے تھے۔ اپنی بات پورے اعتماد کے ساتھ تمام خطرات کی پروا کئے بغیر لکھتے تھے اور اس پر آخر تک قایم بھی رہتے تھے۔ بابری مسجد تحریک کے دوران جب رابطہ کمیٹی کے کنوینر سید شہاب الدین نے بطوراحتجاج یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کی اپیل کی تو انھوں نے اس کے خلاف بہت سخت اداریہ لکھا۔عنوان تھا ”شہاب الدین کا خطرناک سیاسی کھیل“۔چند جملے ملاحظہ ہوں:
”شہاب الدین صاحب ایک بار پھر بابری مسجد کے سوال پر گرم ہونے لگے ہیں۔مسلمانوں کو یوم جمہوریہ کا ہرگز بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے۔یہ میلا ٹھیلا نہیں ہے،نہ تہوار ہے۔یہ دستور کے نفاذ کا یادگاری دن ہے۔مسلمانوں اور تمام ہندوستانیوں کو جتنے بھی قانونی اور شہری حقوق حاصل ہیں، ان کے نفاذ کا یادگاری دن 26/جنوری کومنایا جاتا ہے۔مسلمان شہاب الدین صاحب کے سیاسی کھیل سے ہوشیاررہیں ورنہ بہت نقصان اٹھائیں گے۔“(’آزادہند‘25/دسمبر1986)
سعید صاحب نے یہ اداریہ ایسے دور میں تحریر کیا تھا، جب ملک میں بابری مسجد بازیابی کی تحریک عروج پر تھی۔ شہاب الدین صاحب کی حیثیت اس وقت’قائداعظم‘ جیسی تھی۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔اس کے باوجود سعید صاحب نے یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف اداریہ لکھا۔ بعد کو شہاب الدین صاحب نے اپیل واپس بھی لی، لیکن بعدازخرابی بسیار۔
سعید صاحب کے اداریوں کی دھاک صرف کلکتہ تک محدود نہیں تھی بلکہ ملک گیر سطح پر اس کا اثر قبول کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس دور کے معاصر اخبارات ان کے اداریوں کو اپنے یہاں نقل کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں ان اداریوں کو ترجمہ کرکے وزیراعظم کی میز تک بھی پہنچایا جاتا تھا۔ ممتازصحافی اور نقادمرحوم ظ۔انصاری نے لکھا ہے کہ:
”انھوں نے گزشتہ تین چار سال میں ایسے دھواں دھار،سنبھلے ہوئے، سیدھے سبھاؤ،منطقی استدلال لیے ہوئے، نپے تلے اڈی ٹوریل لکھے ہیں کہ پچھلے برس جب میں ”انقلاب“کی (دوسرے راؤنڈپر)ایڈیٹری کررہا تھا، ہرہفتے کم سے کم ایک بار ضرور ’آزادہند‘یا ’اجالا‘ کے اڈی ٹوریل کا اقتباس اپنے ادارتی صفحہ پرنقل کراتا رہا، تاکہ ہمعصر مدیروں کو بھی ان سے آزاد روی، اور اجالا ملے۔ اتنی سادگی اور معقولیت سے وہ مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ(مجھے معتبر ذریعہ سے تحقیق ہوا کہ)ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن وعمل سے باخبر رہنے کی خاطراردو کے تین چار اخباروں کا جو بریف انگریزی میں تیار ہوکر وزیراعظم کو پیش کیا جاتا ہے، ان میں ’آزاد ہند‘سرفہرست ہے اور اسے دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں احمدسعیدملیح آبادی مسلم انڈیا کے بڑے حصے کی ترجمانی کا فریضہ دلیری سے انجام دے رہے ہیں۔“(ماہنامہ ’انشاء‘کلکتہ،احمدسعیدملیح آبادی نمبر،صفحہ12)
سعید صاحب کو صحافت ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی، مولانا آزاد کے رفیق کار تھے۔ ’آزادہند‘ کا اجراء بھی مولانا آزادکے ایماء پر ہی ہوا تھا۔ اسی لیے اس نے ’الہلال‘اور ’البلاغ‘ کا رنگ اختیار کیا۔ ’آزادہند‘ نے سعیدصاحب کی ادارت میں اردو صحافت کے کئی سنگ میل قایم کئے۔ ’آزادہند‘بند ہونے کے بعد اردوصحافت میں جو خلاء پیدا ہو ا،وہ آج تک پرنہیں ہوسکاہے۔