مساجد اور خواتین
نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب
خواتین اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں مسجد ایک ایسا کردار ادا کرسکتی ہے جس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب ہم خواتین کو اپنی مسجدوں میں مصروف رکھنا شروع کردیں گے۔ موضوع بحث یہ بالکل نہیں ہے کہ پنج وقتہ نماز یا نمازِ جمعہ اور عیدین میں خواتین کی شرکت جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کیا آج کے حالات میں مناسب ہے یا نہیں؟ اس پرصدیوں بحث ہوچکی، اس پر آپ اپنے اپنے مسلک کے لحاظ سے عمل کریں اور اپنے علماء کی باتیں مانیں۔مگر اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگرخواتین کے لئے مسجدوں میں تعلیمی، معاشی، سماجی اور رفاہی سرگرمیاں شروع کی جائیں تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کی آج کے دور میں شدید ترین ضرورت ہے۔
خواتین گھروں کی چہار دیواری اور خاص طور پر بڑے شہروں میں اپنے فلیٹ میں بند رہتی ہیں جہاں ان کے سامنے سوشل میڈیا یا ٹی وی اسکرین کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ان کے انٹرٹینمنٹ کا جو کچھ سامان مہیا ہے وہ دینی اور فکری لحاظ سے منفی اور غیر مفید ہے۔ ایسی صورت میں ہم خواتین کو مسجدوں سے جوڑ کر ایسی صورتحال سے بہت حد تک چھٹکارہ پانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ان کے لیے مختلف قسم کے پروگرامس تیار کیے جاسکتے ہیں جن کے اثرات بہت دور رس اور قابلِ ستائش ہوں گے۔
دوسری طر ف گھروں کے اندر مسلم خواتین کو شب و روز بیٹھے رہنے اور جسمانی حرکت نہ ہونے کے باعث بہت سی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں، بعض کو بلڈ پریشر، شوگر اور موٹاپا وغیرہ کا مرض لاحق ہوجاتا ہے تو بعض کو پستان کا کینسر اور ماہ واری کے متعلق خطرناک بیماریاں وغیرہ وغیرہ، مزید برآں ملک کے موجودہ حالات میں سیلف ڈفنس کی جتنی سخت ضرورت ہماری لڑکیوں کو ہے اس کو ہر باشعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
اس پس منظر میں اپنی مسجدوں میں خواتین کے مختلف طبی موضوعات پر لیکچرس اور بیداری پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرامس کا انعقاد کرنا انتہائی ضروری اور ناگزیرہے۔ مثلاً شوگر کی بیماری میں کیا کرنا چاہیے؟ ہارٹ کی بیماری سے بچنے کے کیا طریقے ہیں؟ کس طرح پستان کے کینسر کی پہلے ہی جانچ کرانے سے جان بچ سکتی ہے؟ ورزش اور اکسرسائز سے بہت سی بیماریوں میں کیسے راحت مل سکتی ہے؟ اسی طرح مختلف موضوعات پر ماہ میں ایک بار خواتین کے لیے لیکچر کرانے میں ان کے اندر ہم بیداری پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے کسی خاص کمرہ کو خواتین کی ورزش کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں مکمل پردہ میں ورزش کے انتظامات ہوں، اسی طرح بچیوں کو کراٹے اور سیلف ڈفنس کی بھی ٹریننگ مکمل پردہ کے ساتھ دینے کے لئے ہم اپنی مسجدوں کا بخوبی استعمال کرسکتے ہیں اور یہ سب کرنے کے لئے بہت سے وسائل اور پیسوں کی قطعی ضرورت نہیں، بس تھوڑی سی بیداری اور ہمت کی ضرورت ہے، چونکہ مسجد کی شکل میں اللہ تعالی نے ہمیں ایک بہترین انفراسٹرکچر پہلے ہی سے عنایت کر رکھا ہے اس لئے بہت ہی معمولی خرچہ کے ساتھ یہ سارے امور انجام پاسکتے ہیں۔
مسجد ہی کے اندر صحت کے متعلق لیکچرز کیوں اور مسجد ہی کے احاطے میں بچوں کی سیلف ڈفنس کی ٹریننگ کیوں؟ ایسے سوالات آپ کے ذہن میں آسکتے ہیں۔ تو یاد رکھئے کہ مسجد کا پاکیزہ ماحول خواتین کے اندر جو ذہنی سکون اور گارجین کے اندر جو اطمینان پیدا کرے گا وہ دوسری جگہ میسر نہیں ہوسکتا۔ ساتھ ہی مسجد کے انفراسٹرکچر کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے میں خرچہ بھی کم آئے گا اور اگر فیس بھی ہوگی تو بہت ہی معمولی، تیسری بات یہ کہ مختلف سرگرمیوں کے انعقاد سے پہلے یا بعد میں قرآن کا درس بھی دس منٹ کے لیے دیا جاسکتا ہے جو اس سرگرمی میں مزید چار چاند لگاسکتا ہے۔
مسجد صرف مردوں کے لیے اللہ کا گھر نہیں ہے مسجدوں پر ہماری خواتین کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مرد حضرات کا، اس لئے مساجد سے خواتین کو دور رکھنا اور ان کی تعمیر وترقی کے لئے مسجدکا استعمال نہ کرنا انتہائی غیر دانشمندانہ عمل ہے۔ اگرہم اپنی مسجدوں سے خواتین کو جوڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی گودوں میں پرورش پانے والی ہماری نئی نسلیں یقینا دینی ماحول میں پروان چڑھیں گی۔