نئی دہلی۶۱/ اکتوبر، جامعہ نگر کے تسمیہ آڈیٹوریم ایک بین اقوامی ادبی رسالے ادبِ عالیہ کے پہلے شمارہ کے افتتاح کے موقع پر
مشہور و معروف عاشق ِ اردو ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے ڈاکٹر فریاد آزر کے عالمی اردو جریدے ادبِ عالیہ کا افتتاح کیا اور فرمایا کہ اس عہد میں ایک نہایت شاندار ادبی رسالہ نکالنا وہ بھی اردو میں، بڑے دل گردے اور حوصلے کی بات ہے، خدا اس رسالے کو کامیاب بنائے اور یہ رسالہ جیسا کہ اس کے مشمولات سے ظاہرہوتا ہے، واقعی عالمی اردو ادب کا میعاری رسالہ ہے، اردو عوام و خواص کو چاہئے کہ اس رسالے کی اور اس کے مدیر ڈاکٹر فریاد آزر کی حوصلہ افزائی کریں۔ پروفیسرابنِ کنول نے ڈاکٹر فریاد آزر کو اس اہم کارنامہ پر مبارک باد پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ اردو ادیب اسے اپنائیں گے اور ادبِ عالیہ میں شائع ہونا فخر کی بات محسوس کریں گے۔ پروفیسرموصوف نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ادبِ عالیہ کے ہر شمارے میں تازگی محسوس ہونی چاہئے،ایسا نہ ہو کہ پرانے مضامین اس میں شامل ہوں۔ پروفیسر شہپر رسول نے رسالے کواردو ادب کا ایک نیا باب قرار دیا،انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے رسالے ایک طرف دم توڑتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف فریاد آزر جیسے اردو کے جنونی عاشق ادب کے بنجر زمین کو ہریالی بخشنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مشہور معروف ادیب حقانی القاسمی نے ادبِ عالیہ کی اصطلاح کو کلاسیکی ادب کا ہم معنی قرار دیا،پھر بھی انہوں نے ادبِ عالیہ نامی اس رسالے کو اردو ادب کے لئے نیک شگون قرار دیا۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے اسے اردو رسائل میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا نامور ماہرِ ادبیاتِ اطفال جنا ب سراج عظیم نے یہ خوشی ظاہر کی کہ اردو کے کسی بھی ادبی رسالہ میں ادبِ اطفال کو جگہ نہیں دی جاتی لیکن ادبِ عالیہ نے بچوں کے ادب پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ڈاکٹر ایم آر قاسمی نے ادبِ عالیہ کو اس دور کا اہم ادبی رسالہ بتایا جو عالمی طور پر مقبول ہو رہا ہے۔اس خصوصی محفل میں ادبِ عالیہ کے مدیر، نامور شاعر اور ادبی صحافی ڈاکٹر فریاد آزر نے اردو کی اہم ترین شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے سبھی کا شکریہ ادا کیا لیکن اردو کے زوال کا ذمہ دار خود اہلِ اردو کو قرار دیا ۔ ان کے مطابق اردو عوام اپنی نئی نسل کو اردو سے ناآشنا رکھ رہے ہیں اور اس میں انہیں کوئی تکلیف بھی نہیں ہو رہی ہے۔ دوسری طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز اہلِ اردو حضرات اپنی نئی نسل کو عام طور پر انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں جہاں اردو زبان پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔اس کے علا وہ لوگ اردو کے اخبارو رسائل خریدنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ عام طور پر اردو کے ادیب و شاعر اردو کے رسائل اس لئے نہیں خریدتے کہ ہمیں ادیب و شاعر ہونے کے ناطے رسالہ مفت میں ملنا چاہئے جس کے نتیجے میں بڑے بڑے ادبی رسائل بند ہو گئے اور بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ اردو کے عاشق اپنے ذاتی طور پر نیا رسالہ شروع کرتے ہیں لیکن کوئی خریدار نہ ملنے پر یا فقط گنتی کے خریدار ملنے کی وجہ سے یہ رسالے بھی چند شماروں کے بعد دم توڑ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر آزر نے سوشل میڈیا پر بھی اردو والوں کی بے حسی کے مظاہرے کو محسوس کیا ہے۔ ان کے بقول اردو کے زیادہ تر شعرا اپنے کلام پر زیادہ لائک پانے کی دھن میں یا تو اپنا کلام ہندی میں پوسٹ کرنے لگے ہیں یا پھر اردو کے ساتھ ہندی ضرور لگا دیتے ہیں۔ وہ انجانے میں یا جان بوجھ کر یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ ہندی خط کے بغیراردو کا کوئی وجود نہیں، اس کام میں اردو عوام ہی
نہیں بلکہ کچھ نادان پروفیسر بھی آگے آگے ہیں۔اگر انہیں ٹوکا جاتا ہے تو برا مان جاتے ہیں اور کچھ تو باقاعدہ لڑ نے لگ جاتے ہیں۔
پروگرام کا دوسرا حصہ ایک مشاعرہ پر مبنی تھا جس کی صدارت معروف شاعر پروفیسر شہپر رسول نے کی۔ مشاعرہ بہت ہی کامیاب رہا جس کے اختتام کے بعد ڈاکٹر سید فاروق صاحب کی طرف سے ایک پرتکلف عشائیے کا ہتمام کیا گیا پھرسبھی شرکا کو ہمالیہ پروڈکٹ کے گفٹ پیک سے نواز کر رخصت کیا۔
تصویر کا کیپشن
مائک پر داکٹر سید فاروق صاحب، اسٹیج پر ناظمِ پروگرام حامد علی اختر،پروفیسر شہپر رسول،پروفیسر ابنِ کنول اور ادبِ عالیہ کے مدیر ڈاکٹر فریاد
آزرؔ