ایک بھارت شریسٹھ بھارت: ہندوستانی فلموں کو ایک دھاگے میں پرونے کی طاقت

ایک بھارت شریسٹھ بھارت: ہندوستانی فلموں کو ایک دھاگے میں پرونے کی طاقت

اشونی ویشنو

مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات، ریلوے، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی

معروف فلم ساز ستیہ جیت رے نے لوگوں کو ایک دھاگے میں پرونے کی سنیما کی طاقت کی نبز کوپکڑتے ہوئے کہا تھا ، “سینما ایک عالمگیر زبان بولتا ہے‘‘۔ ہندوستانی سنیما، اپنے وسیع لسانی اور ثقافتی تنوع کے ساتھ، ملک کے ہر کونے سے لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے، جس سے وہ مشترکہ جذبات اور تجربات کا اشتراک کرسکتے ہیں۔ خواہ یہ تمل ڈرامہ ہو، ہندی کی مقبول ترین فلم، یا مکمل طور پرمراٹھی فلم، سنیما تعلق کے گہرے احساس کو فروغ دیتا ہے، تفریق کو ختم کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ہم ایک ہیں۔

ہندوستانی سنیما کی آفاقیت علاقائی اور لسانی سرحدوں کو عبور کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے، جو اسے قومی اتحاد کے لیے ایک موثرقوت بناتی ہے۔ راج کپور کی کلاسک جیسے شری 420، جو ہر زبان میں گونجتی ہے ،سے منی رتنم کی روجا تک، جسے ملک بھر میں پذیرائی ملی، ہندوستانی فلمیں جذبات کی ایسی زبان بولتی ہیں جسے ہر شخص سمجھتا ہے۔ ایم ایس ستھیو کی گرم ہوا، اوربمل رائے کی دو بیگھا زمین ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ جدوجہد، محبت اور فتح کی کہانیاں سرحدوں تک محدود نہیں ہیں، اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ سنیما صحیح معنوں میں دیش کو ایک دھاگے میں پرونے کی قوت رکھتا ہے۔

یہ سنیما کی عالمگیریت ہی ہے جسکا جشن ہر سال اس وقت منایاجاتا ہے جب بہترین فلموں، بہترین ہدایت کاروں اور بہترین اداکاروں کو صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے قومی فلم ایوارڈوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہ آنکھوں کو چکا چوندھ کر دینے والی کوئی پر کشش تقریب نہیں ہے ، جو عام طور پر ایسے مواقع پرمنعقد کی جاتی ہیں۔ یہ ٹیلنٹ -تخلیق کاروں اور افسانہ نگاروں کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ یہ ہندوستان کی زبانوں اور بولیوں کے بہت سے شاندار، بہت سے رنگوں والے تنوع کا بھی اثبات ہے جو مل کر اس عظیم قومی اتحاد کا جادوئی تانے بانے کو بُنتے ہیں اور سینکڑوں زبانیں بولنے والے تقریباً ڈیڑھ ارب لوگوں کو جوڑتے ہیں۔

نیشنل فلم ایوارڈ کی انفرادیت اس حقیقت سے عیاں ہے کہ بہترین فلم کے لئے اعزاز سے نوازے جانے والوں میں تیوا زبان میں بنی فلم ‘سی کیسل’ (کاش صرف پیڑ ہی بول پاتے) شامل ہے۔ یہ تیوا لوگوں کی زبان ہے، ایک تبتی-برمی نسلی گروہ جس کے ارکان ہندوستان کے شمال مشرق اور بنگلہ دیش اور میانمار میں پائے جاتے ہیں۔ 70 ویں نیشنل فلم ایوارڈ کے لیے حکومت کو فیچر فلم کے زمرے میں 32 مختلف زبانوں میں 309 فلمیں اور غیر فیچر زمرےمیں 17 زبانوں میں 128 فلمیں موصول ہوئیں۔ فیچر فلم کے زمرے میں گولڈن لوٹس ایوارڈ چار ہندوستانی زبانوں کی فلموں نے جیتا، جن میں سے ایک ہریانوی میں تھی۔ ہندی اور تمل زبان کی پانچ فلموں نے اس زمرے میں سلور لوٹس ایوارڈ جیتا، ملیالم، گجراتی، کنڑ، ہریانوی اور بنگالی کی فلموں نے بھی ایوارڈ جیتا۔ ہندوستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل زبانوں کی دس فلموں کو سلور لوٹس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ہندی اور اردو میں ریلیز ہوئی ایک فلم نے بہترین غیر فیچر فلم کا گولڈن لوٹس ایوارڈ جیتا۔

زبان کی سیاست کے ناقدین جتنا بھی بحث کریں، حقیقت یہ ہے کہ لسانی ریاستوں کے ساتھ جمہوریہ ہند کے قیام کے تقریباً 75 سال بعد، ماضی کی رکاوٹیں کئی دہائیوں کے دوران بڑی حد تک ختم ہو چکی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ بالی ووڈ فلموں نے ہندی کو بڑے پیمانے پر قبول کیا ہے۔ لیکن یہ ہندوستانی معاشرے کے متنوع حصوں پر فلموں کا صرف ایک بڑا اثر ہے۔ دوسرا بڑا اثر لوگوں کو ‘دوسرے’ لسانی گروہوں اور شناختوں سے آگاہ کرنا ہے، جس سے ‘ایک بھارت، شریشٹھ بھارت’ کے تنوع میں اتحاد کے گہرے، مستقل احساس کو فروغ دیا جائے۔

ہندوستانی سنیما کے ضمن میں، تو یہ ایک نعرے سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اسکے کثیر استعمال نے اسکے وقار کو کم کیا ہے۔ہندوستانی سنیما ناقابل تصور کی حد تک ان تخلیق کاروں کی بڑی جماعت کو ظاہر کرتا ہے جو سیاست، معاشرے، ثقافت میں آفاقی عقائد کے زیر اثر جادوئی تفریح تخلیق کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو یکجا کرتے ہیں جسے ہم ایک اکائی کے طور پر لوگوں کی شکل میں اور لوگوں کو ایک قوم کے طور پر باندھنے والی اخلاقی اقدار کہتے ہیں، پر مبنی جادوئی تفریح کی تخلیق کرنے کے لئے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ دراصل ، کوئی بھی ہندوستانی کہانی ان آفاقی عناصر کے بغیر کبھی نہیں سنائی گئی جو اخلاقیات اور اقدار کو اجاگر کرتی ہے اور جسے صرف فلمساز اور ناظرین کی اندرونی آنکھ ہی سمجھ سکتی ہے۔ اب تک کہی گئی دو سب سے بڑی کہانیاں – رامائن اور مہابھارت – اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔

ہمارے سنیما کا دوسرا پہلو وہ سہل پسندی ہے جس کے ساتھ ہمارے فلمساز ان تفرقہ انگیز نشانات کو مٹا دیتے ہیں جو سماجی، ثقافتی اور سیاسی انحطاط کا مرکز ہیں۔ یہ ہندوستان میں کہانی سنانے کے ہنر کی انوکھی طاقت بھی ہے۔ خواہ وہ آرٹ فلمیں ہوں، مقبول فلمیں ہوں، کمرشل فلمیں ہوں یا جدید دور کو چیلنج کرنے والی او ٹی ٹی فلمیں ہوں،ہم ایک ساتھ متاثر ہوتے ہیں، ہم ایک ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اور ہم مل کر جشن مناتے ہیں۔ تیلگوزبان کی مشہور فلم ‘آر آر آر’ کا ایک گانا ‘ناٹو ناٹو’ جس نے آسکر اور گولڈن گلوب جیتا ہے، زبان، نسل اور قومیت کو توڑ کر نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں سپر ہٹ ثابت ہوا۔

ہندوستانی سنیما کو عالمی سطح پر اونچا اٹھانے کے لیے، حکومت تین بنیادی ستونوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے: ایک مضبوط ٹیلنٹ پائپ لائن تیار کرنا، فلم سازوں کے لیے انفراسٹرکچر کو بڑھانا، اور کہانی لکھنے والوں کو بااختیار بنانے کے عمل کو آسان بنانا۔ حکومت نے حال ہی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کریٹیو ٹیکنالوجی (آئی آئی سی ٹی)کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہندوستانی سنیما فلم سازی کی جدید ترین ٹکنالوجیوں کو اپنانے کے ساتھ قومی یکجہتی اور عالمی تفریح دونوں میں ایک موثر قوت رہے۔ 

اور جب ہم مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں، ایک بھارت شریشٹھ بھارت میں سنیما کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ تیزی سے تغیرپذیر دنیا میں، ہندوستانی سنیما اپنے افق کو جدت اور وسعت دیتا رہتا ہے، ایسی کہانیاں سناتا ہے جو نہ صرف ہمارے تنوع کی عکاسی کرتی ہے بلکہ مشترکہ مستقبل کا تصور بھی کرتی ہے۔ ہر فریم کے ساتھ، ہندوستانی فلم ساز کہانی بیان کرنے کی حدود کو آگے بڑھاتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ سنیما ایک منسلک، آگے کی طرف نظر آنے والے ہندوستان میں اتحاد اور ترقی کے لیے ایک طاقتور محرک بنا رہے۔

*****

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment