آزاد صحافیوں پر دہلی پولس کا دھاوا

Delhi Police attack on independent journalists

آزاد صحافیوں پر دہلی پولس کا دھاوا
سچی اور صاف ستھری صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش
عبدالعزیز
گزشتہ روز (3 اکتوبر) دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے راجدھانی میں 30 سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے۔ جن میں ’نیوز کلک‘ کے احاطے کے ساتھ ساتھ اس کے صحافیوں کی رہائش گاہیں بھی شامل تھیں۔ میڈیا، آؤٹ لیٹ پر چین سے فنڈ لینے کا الزام لگائے جانے کے بعد یہ چھاپے مارے گئے۔ دہلی پولس کے افسران کے حوالے ’اے بی پی لائیو‘ نے بتایا ہے کہ پولس کے اسپیشل سیل نے غیر ملکی فنڈنگ کی جانچ کے سلسلے میں چھاپے ماری کے بعد نیوز پورٹل کے دفتر کو سیل کردیا ہے۔ اس معاملے میں پولس کا کہنا ہے کہ اسپیشل سیل میں درج یو اے پی اے معاملے میں کی گئی چھاپہ ماری ، ضبطی اور حراست کے بعد دو ملزمان پر بیر پرکائستھ اور امیت چکرورتی کو گرفتار کیا گیا۔ مجموعی طور پر مشتبہ 37 مردوں اور 9 خواتین سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ اس دوران ڈیجیٹل مواد اور دستاویزات وغیرہ کو جانچ کے لئے پولس نے ضبط کرلیا ہے۔ چھاپے کے دوران اسپیشل سیل نے الیکٹرونک شواہد، لیپ ٹاپ، موبائل فون، پین ڈرائیوز بھی ضبط کیں اور نیوز کلک کے دفتر سے ہارڈ ڈسک کے ڈیٹاڈمپ بھی قبضے میں لے لئے۔ اس تنظیم سے وابستہ صحافیوں بشمول بھاشا سنگھ، ابھیشار شرما اور سنجے راجو سمیت دیگر معروف صحافی شامل ہیں۔
ابھیشار شرما، جو ’نیوز کلک‘ کے لئے ’انڈیا کی بات‘ نامی ایک ٹاک شو میزبان ہیں، نے صبح تقریباً 8 بجے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ جسے پہلے ’ٹوئٹر‘ کہا جاتا تھا، کے ذریعے بتایا کہ ’’دہلی پولس میرے گھر پر آئی ہے۔ میرا لیپ ٹاپ اور فون لے جا رہے ہیں‘‘۔
اس کے آدھے گھنٹے بعد نیوز کلک سے منسلک ایک اور صحافی بھاشا سنگھ نے سوشل میڈیا کے ہی ذریعے اطلاع دی کہ ’آخر کار اس فون سے آخری ٹویٹ… ’’دہلی پولس نے میرا فون ضبط کر لیا‘‘۔چند ہی منٹوں میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں مزید نام نظر آئے، جن میں ایک مورخ اور ایک ’اسٹینڈ اپ کامیڈین‘ بھی شامل تھے۔ جن افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کیے گئے اور چند کو پولس تھانے میں طلب کیا گیا۔
پولس ذرائع کے مطابق یہ کاروائیاں انڈیا میں دہشت گردی کے خلاف سخت قانون ’یو اے پی اے‘ کے تحت کی جا رہی ہیں۔2021ء میں دہلی پولس کے اقتصادی جرائم ونگ نے نیوز کلک کے آفس پر چھاپہ مارا تھا اور کچھ اثاثے ضبط کرنے کے ساتھ ایک مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
تفتیشی ایجنسیوں کا مبینہ طور پر الزام تھا کہ نیوز پورٹل کو چین سے منسلک اداروں سے تقریباً 38 کروڑ روپے کی رقم ملی تاہم دہلی ہائی کورٹ نے نیوز کلک کے پروموٹرز کو گرفتاری سے تحفظ دیا تھا اور یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔نیوز کلک کا موقف ہے کہ ’’یہ الزامات نئے نہیں‘‘ بلکہ ان کا ہر قدم قانونی دائرے میں ہے اور وہ عدالت میں ان کا جواب دیں گے کیونکہ یہ معاملات زیر سماعت ہیں۔
چھاپہ کن لوگوں کے گھروں پر مارا گیا؟’نیوز کلک‘ کے ایڈیٹر کو بھی دہلی پولس کے اسپیشل سیل کے دفتر لے جایا گیا ہے جبکہ جن دیگر افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ان میں مورخ، سماجی کارکن اور فلم ساز سہیل ہاشمی بھی شامل ہیں جو دہلی کی تاریخ پر ایک دہائی سے کام کر رہے ہیں۔سہیل ہاشمی کی بہن اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے اعلان کیا کہ پولس صبح چھ بجے کے قریب ان کے بھائی کے گھر پہنچی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی ان افراد میں سے ایک ہیں جن پر ’دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے آج صبح چھاپہ مارا۔‘انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’چھ لوگ گھر اور سونے کے کمرے میں گھس گئے۔ دو گھنٹے تک ان سے پوچھ گچھ کی۔ پولس نے اس کا کمپیوٹر، فون، ہارڈ ڈسک اور فلیش ڈرائیوز ضبط کر لی ہیں۔‘
نیوز کلک کے ایڈیٹر پرابیر پرکائستھ۔طنز نگار سنجے راجورا، اسی پورٹل کے ’بھارت ایک موج‘ نامی شو کے میزبان ہیں اور ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے آخری بار 21 جون 2021ء کو یہ شو ٹیلی کاسٹ کیا تھا تاہم ان کے گھر پر بھی پولس کا چھاپہ پڑا۔دیگر افراد میں ’این ڈی ٹی وی‘ نیوز چینل کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر آنندوئے چکرورتی، تحقیقاتی صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا اور سینئر صحافی ارملیش شامل ہیں جبکہ سماجی کارکن تیستا سیتلواد کے گھر پر بھی ممبئی میں چھاپے مارے گئے۔پولس کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کے گھر بھی گئی کیونکہ ان کے مطابق ان کے ساتھ رہنے والے ایک ساتھی کا بیٹا اس پورٹل کے ساتھ کام کرتا ہے۔
پریس کلب آف انڈیا نے پولس کے ان چھاپوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور ایک تفصیلی بیان جاری کریں گے‘‘۔’نیٹ ورک آف ویمین ان میڈیا‘ نے کہا ہے کہ حکومت کے ذریعے ’’اختلاف رائے کو ختم کرنے کی اس مہم کا رکنا ضروری ہے‘‘۔
ڈیجیٹل میڈیا کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ ’ڈیجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن‘ نے کہا ہے کہ ’’یہ حکومت کے من مانی اور دھمکی آمیز رویے کی ایک اور مثال ہے‘‘۔
رواں سال کے آغاز میں انڈین ٹیکس حکام نے بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی بھی لی تھی اور ملک میں کاروباری معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ دہلی اور ممبئی میں ہونے والی اس کارروائی سے چند ہفتے قبل بی بی سی نے برطانیہ میں ایک ڈاکومینٹری جاری کی تھی جس میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے گجرات فسادات سے جڑے کردار پر بات کی گئی تھی۔اس کے علاوہ ٹیکس حکام نے 2021ء میں ایک اخبار پر ٹیکس چوری کرنے کا الزام لگایا تھا جس میں کورونا وبا کے دوران حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی سالانہ درجہ بندی کے مطابق انڈیا عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں اب تک کی سب سے کم 150 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال یہ 140 ویں نمبر پر تھا تاہم انڈین حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کے طریقہ کار پر سوال کیا ہے۔
انڈیا اور چین کا تنازع:انڈیا اور چین کے تعلقات جون 2020ء سے تلخ ہیں جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں متعدد انڈین اور چینی فوجی ہلاک ہوئے۔اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی بھی قسم کی چینی دراندازی کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نہ کوئی وہاں ہماری سرحد میں گھس آیا اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے‘‘۔
تاہم ہندستان میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے ہوئے تو چند ماہ بعد انڈیا نے قومی سلامتی کی بنا پر 200 سے زائد چینی ایپس پر پابندی لگا دی۔اس کے بعد چینی کمپنیوں، جیسے کہ مشہور سمارٹ فون بنانے والی کمپنیاں ’شایومی‘ اور ’ویو‘ پر چھاپے مارے گئے اور شایومی کے 5 ہزار کروڑ سے زیادہ کے اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا۔
جتنے صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں ان کے لیپ ٹاپ یا موبائل فون وغیرہ ضبط کئے گئے ہیں یہ ایک طرح سے حکومت کی طرف سے زبان بندی کی کوشش ہے ۔ایسا ماحول عموماً کسی ملک میں ایمرجنسی کے دوران ہوا کرتا ہے۔ آزاد صحافت پر قدغن لگانے یا آزادیِ رائے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے حکومت کی اتنی ہی کمزوری دنیا کے سامنے ظاہر ہوتی ہے۔ ملک بھی بدنام ہوتا ہے۔ آج دنیا بھر میں الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں ملک کے صحافیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا اور دو بڑے صحافیوں کی گرفتاری ہوئی اس سے متعلق خبر تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ صحافت سے متعلق ادارے اور صحافی حکومت کے اس اقدام کی پرزور مذمت کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف آج (4اکتوبر)صحافیوں کے مظاہرے کا بھی پروگرام ہے۔ حکومت جو کچھ بھی کر رہی وہ چار ریاستوں میں الیکشن کے پیش نظر کر رہی ہے اور کاسٹ سروے کے مدنظر کر رہی ہے تاکہ حکومت اپنے انتخابی مقاصد میں کامیاب ہو۔ ’انڈیا اتحاد‘ نے صحافیوں کے خلاف کارروائی کی سخت مذمت کی ہے۔ حکومت جو کچھ سوچ رہی ہے یا کر رہی ہے اس سے حکومت کو فائدہ ملنے کا بہت کم امکان ہے نقصان ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment