نئی دہلی ۔ اوکھلا پریس کلب کے زیر اہتمام تسمیہ آڈیٹوریم میں سابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر خالد محمود کی علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں تہنیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ اس صدارت تسمیہ ایجوکیشن سوسائٹی اور آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے فرمائی ۔ اس موقع پر اوکھلا پریس کلب کے چیئرمین محمد اطہر الدین منّے بھارتی نے مہمانوں کا استقبال کیا انہوں نے کہا کہ اوکھلا میں قیام پذیر ایسے بزرگوں جنھوں نے کسی بھی شعبہ میں قابل ذکر کام کیا ہے ان کی خدمات کے اعتراف میں تہنیتی تقریبات منعقد کرنا پریس کلب کے مقاصد میں شامل ہے ۔ آج کے پروگرام سے اس کی ابتداء کی گئی ہے ۔
پروفیسر خالد محمود صاحب کی خدمت میں ڈاکٹر سید فاروق، اطہر الدین منے بھارتی، پروفیسر ابن کنول، ڈاکٹر مظفر حسین غزالی، سہیل انجم اور محمد سلام خان نے میمنٹو، شال اور گلدستہ پیش کر کے ان کی علمی ادبی خدمات کا اعتراف کیا ۔ اس موقع پر خالد محمود کی شاگردہ غزالہ فاطمہ نے ان کی شخصیت پر مقالہ پیش کیا تو دوسرے شاگرد ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے پروفیسر صاحب کی انشاء پردازی، خاکہ نگاری، شاعری، تنقید، تحقیق اور سفر ناموں کا ذکر کیا ۔ خالد محمود صاحب کے پروفیسر شفیع ایوب کے خاکہ سے سامعین خوب محضوض ہوئے ۔ جناب متین امروہوی اور ریاضت علی شائق نے پروفیسر صاحب کو منظوم تہنیت پیش کی ۔ اوکھلا پریس کلب کے وائس چیئرمین اور مشہور صحافی سہیل انجم نے اپنے خاص انداز میں خالد محمود صاحب کا خاکہ پڑھا تو پروفیسر ابن کنول نے ذاتی مشاہدات کو خاکہ کا موضوع بنایا ۔ پروفیسر توقیر خان نے خالد محمود کی شعری خدمات کے اعتراف میں ان کی شاعری پر پر مغز گفتگو فرمائی ۔ محمد سلام خان صاحب سابق جج نے نئی نسل کو زبان و اقدار سے جوڑنے کی طرف توجہ دلائی ۔ خالد محمود صاحب نے کہا کہ اوکھلا پریس کلب کے ذمہ داران نے میرے لئے تہنیتی تقریب کا انعقاد کیا اس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ ویسے میں اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتا ۔ انہوں نے اردو کی میں نے نہیں بلکہ اردو نے میری خدمت کی ہے ۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اردو کی بدولت ہوں ۔ میں نے تو اپنی ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کی ہے ۔ جب میری تعریف کی جاتی ہے تو میرے لئے کچھ بھی کہنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ پروفیسر صاحب کی اہلیہ سابق پرو وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر تسنیم فاطمہ نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خالد صاحب کی خوبیوں اور خامیوں پر بات کی ۔ تسنیم صاحبہ کی گفتگو نے ان کی عظمت کو اور بڑھا دیا ۔ آج کی تقریب کے صدر ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے کہا کہ علاقے کے لوگ اور اہلیہ اگر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
انہوں نے خالد محمود کے کئی اشعار پڑھ کر ان کی ادبی خدمت کا اعتراف کیا ۔ اوکھلا پریس کلب کے ذریعہ نمایاں کام کرنے والوں کی خدمات کے اعتراف کو انہوں اہم قدم بتایا ۔ پروگرام کے دوران منور حسن کمال کی تازہ کتاب “فکشن، تنقید، تکنیک، تفہیم” کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا ۔ پروگرام کی نظامت اوکھلا پریس کلب کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے کی جبکہ شکریہ کی رسم کلب کے وائس چیئرمین رومان ہاشمی نے ادا کی ۔ جاوید اختر ڈی ڈبلیو نیوز، شہلا نگار، فرمان چودھری ڈی ڈی نیوز، مظہر محمود دوردرشن، شعیب رضا خان ڈائریکٹر نیشنل اوپن اسکول، معروف رضا 7×24 نیوز، محمد احمد کاظمی، ڈاکٹر ادریس قریشی، اویس انصاری شاہ ٹائمز، شمس آغاز انقلاب، جمشید اقبال آج تک، سیف اللہ پی آئی بی، محمد خلیل، ڈاکٹر خالد مبشر، عمران احمد اندلیب جامعہ ملیہ اسلامیہ، محمد ندیم اختر شکھر این جی او، انتخاب عالم ایڈووکیٹ کے علاوہ بڑی تعداد میں علمی ادبی حلقہ سے جڑے حضرات نے تہنیتی تقریب میں شرکت کی ۔