مسلمان وقف ترمیمی قانو ن کو سمجھیں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں :شارق ادیب انصاری

مسلمان وقف ترمیمی قانو ن کو سمجھیں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں :شارق ادیب انصاری

ان دنوں ملک بھر میں وقف ترمیمی قانون کو لے کر زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حلقے اس بل پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہم نے معروف سماجی کارکن و کار گزار قومی صدر آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ شارق ادیب انصاری سے خصوصی بات چیت کی، جنہوں نے اس بل کے ممکنہ اثرات اور یہ بل مسلم برادری کے لئے کیا ہے اس پر کھل کر روشنی ڈالی۔ 

سوال :وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے پاس ہونے کے بعد سے ہی پورے ملک میں ایک شور شرابہ مچا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: دیکھیے، وقف ترمیمی قانون کو لے کر کچھ سیاسی جماعتیں اور مسلم تنظیمیں جس طرح کا شور شرابہ کر رہی ہیں، وہ مناسب نہیں ہے۔ نئے قانون میں کوئی ایسا التزام نہیں ہے جس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہو۔ رہا سوال ان کے احتجاج و مظاہروں کا، تو کسی بھی جمہوری ملک میں ہر بڑے اصلاح کے خلاف کسی نہ کسی سطح پر مخالفت ہونا فطری ہے۔ احتجاج جمہوریت کا حصہ ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شہریوں کو پریشان نہ کریں اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ویسے بھی بھارت کا عام مسلمان سمجھدار ہے اور حقیقت سے واقف ہے۔

سوال :جیسا کہ کئی مسلم تنظیموں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کے بارے میں مسلمانوں اور مسلم تنظیموں سے کوئی رائے مشورہ نہیں لیا گیا، اس پر آپ کیا کہیں گے؟

جواب: یہ کہنا بالکل درست نہیں ہے۔ کئی مسلم تنظیموں کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی ) میں مدعو کیا گیا تھاجیسے آل انڈیا پرسنل لا بورڈ، زکوة فاؤنڈیشن، اور پہلی بار بھارت کی تاریخ میں پسماندہ مسلم تنظیم ’آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ‘ کو بھی وقف بل پر اپنی رائے دینے کے لیے بلایا گیا۔ ہم نے اپنے مشورے اور اعتراضات جے پی سی کے سامنے رکھے۔ اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ کسی مسلم تنظیم سے رائے نہیں لی گئی یہ سراسر غلط اور گمراہ کن دعویٰ ہے۔ جے پی سی نے سب کو اچھی طرح سنا ہے۔

سوال: اس قانون کے پاس ہونے کے بعد سے ہی مسلم تنظیموں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں، مسجدیں اور قبرستان چھین لیے جائیں گے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: یہ قانون وقف جائیداد کی بہتر تنظیم اور ریاستی وقف بورڈز نیز سینٹرل وقف کونسل سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا مسجد، قبرستان، مدرسہ یا امام باڑہ چھیننے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیا قانون ماضی پر نافذ نہیں ہوگا، یعنی جو مساجد، مدارس وغیرہ پہلے سے وقف ہیں، وہ اب بھی وقف ہی رہیں گے۔ وقف مسلمانوں کا ہے اور اس کی نگرانی مسلمان ہی کرتے رہیں گے۔ اس قانون سے صرف انتظام میں شفافیت آئے گی۔

سوال: جیسے کہ آپ نے دعویٰ کیا تو کیا یہ قانون وقف جائیداد کے انتظام سے متعلق ہے یا وقف کے اسلامی اصولوں سے؟

جواب: میں پہلے دوسرے حصے کا جواب دوں گا ،اسلام ایک دین ہے اور وقف اس میں ایک مذہبی اصول ہے۔ یاد رکھیں، بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ وقف کے اسلامی اصول پہلے سے طے ہیں، حکومت ان میں کوئی دخل نہیں دے رہی۔ یہ قانون وقف املاک کے انتظام سے جڑا ہے جن میں کافی بدعنوانی ہے۔ حکومت صرف اسی بدعنوانی اور بدنظمی سے نمٹنا چاہتی ہے۔

سوال : یہ قانون پسماندہ مسلمانوں، مسلم خواتین، اور مسلم کمیونٹی کے دیگر طبقوں جیسے شیعہ، آغا خانی مسلمانوں کے لیے کیسے مفید ہوگا؟

جواب: یہ ایک بہت اہم سوال ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ یہ قانون پسماندہ مسلمانوں، مسلم خواتین اور مسلم سماج کے دیگر پسماندہ طبقوں کو وسیع مواقع دے گا۔ شیعہ برادری کا اپنا الگ وقف بورڈ ہے، جبکہ آغا خانی، اسماعیلی اور بوہرا مسلمان اس قانون سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ پسماندہ مسلمانوں کی اب وقف میں اہم کردار ہوگی کیونکہ وہ اس کے اہم شراکت دار بنیں گے۔

سوال: ایک بات اور کہی جا رہی ہے کہ اس قانون سے غیر مسلموں کا دخل وقف جائیداد اور وقف بورڈ میں ہو جائے گا۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ اس نئے قانون میں بھی وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان اقلیت کے طور پر ہوں گے اور صرف مشورہ دینے کے کردار میں رہیں گے۔ سچ یہ ہے کہ نئے وقف قانون میں ان کا دخل صرف مشاورتی طور پر ہوگا، اور ان کا کردار بہت محدود ہوگا اوریہ حقیقت ہے۔

سوال: تنظیموں کی طرف سے اس قانون کے خلاف جو ماحول بنایا جا رہا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

جواب: دیکھیے، کوئی بھی تنظیم کچھ بھی پروپیگنڈا کر سکتی ہے لیکن میں ملک کے تمام مسلمانوں، خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ خود قانون کو پڑھیں، پڑھے لکھے لوگوں سے بات کریں، وکیلوں اور معاشرے کے بزرگوں سے مشورہ لیں پھر اپنی رائے قائم کریں۔ جذبات میں بہہ کر کچھ نہ کہیں کیونکہ ایک جذباتی ردعمل کسی کی زندگی، کریئر اور خاندان کو برباد کر سکتا ہے۔ قانون پر بھروسہ رکھیں اور امن قائم رکھیں۔ نئے قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کا احتجاج کیا جائے۔

سوال :ایسے تنظیموں کی طرف سے دھرنے، مظاہرے وغیرہ کی جو بات کہی جا رہی ہے کیا وہ صحیح ہے؟

جواب: یہ تو ایک عجیب و غریب بات ہے۔ جن تنظیموں نے احتجاج کی بات کی ہے، انہوں نے ابھی تک خود مسلمانوں کو نئے قانون کے بارے میں سچ بتایا ہی نہیں ہے۔ مسجد، مدارس چھین لیے جانے جیسی جذباتی باتیں کر کے، یہ عام غریب مسلمانوں کو بھڑکا کر اپنی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ بتائیں، جب نیا قانون دونوں ایوانوں سے پاس ہو کرصدر جمہوریہ کے دستخط سے قانون بن چکا ہے تو اس کے خلاف احتجاج کا کیا مطلب ہے؟ یہ تو سراسر بے مقصد بات ہے۔

سوال: ریاستی وقف بورڈز پر لگاتار بدعنوانی اور وقف املاک کے ناجائز استعمال اور بدانتظامی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس کی سچائی کیا ہے؟

جواب: یہ صرف الزامات نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہے کہ وقف بورڈز میں ان کے منتظمین کے ذریعے بدعنوانی، ناجائز استعمال اور بدانتظامی ہوتی ہے۔ ہر وقف بورڈ کروڑوں کی جائیداد کا مالک ہے، لیکن اپنے ملازمین کو تنخواہ تک دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ میرے بھائی خود ایک وقف بورڈ کے اسٹینڈنگ کاؤنسل ہیں لیکن بورڈ ان کی فیس تک نہیں چکا رہا۔

سوال: آپ کی اس قانون کے بارے میں بھارتی حکومت سے کیا توقعات ہیں؟

جواب: مجھے اس نئے قانون سے بہت امیدیں ہیں کہ اسے جلد نافذ کیا جائے گا اور اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ پسماندہ مسلمانوں اور خواتین کو ان کا طویل عرصے سے انتظار کیا گیا حق ملے گا۔ یہ مودی حکومت، خاص طور پر وزیر داخلہ کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔

سوال :آپ اس تمام صورتحال میں بھارت کے مسلمانوں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟

جواب: بھارتی مسلمان سب سے زیادہ مذہبی، خدا سے ڈرنے والے، سب سے زیادہ عطیہ دینے والے، بھائی چارے والے، مددگار، بااخلاق، فطری اور محب وطن ہوتے ہیں۔ وہ بہت سمجھدار ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے لیے، ان کے بچوں، خاندان اور معاشرے کے لیے کیا بہتر ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ پہلے نئے قانون کو پڑھیں اور سمجھیں۔ کچھ ایسے مسلم تنظیمیں جن کا اپنا ایجنڈا ہے، ان کے بہکاوے میں آکر سڑکوں پر نہ اتریں۔ جو بھی کریں، اپنے بچوں، اپنے خاندان اور اپنے والدین کے بارے میں سوچ کر کریں کیونکہ اسلام ہمیں امن

کے ساتھ جینا سکھاتا ہے۔

We need your help to spread this, Please Share

Related posts

Leave a Comment