نفرت کا بلڈوزر، جبرو ظلم کی حکومت
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
عبد العزیز
حکومت کے قیام کا اصل مقصد امن و امان نظم و نسق ہوتا ہے لیکن اگر حکومت انارکی اور بد نظمی کا ذریعہ بن جائے تو امن و امان بھلا کیسے قائم ہو سکتا ہے اور لوگ امن و سکون کی سانس کیسے لے سکتے ہیں؟ گزشتہ آٹھ نو سال سے پورے ملک میں ایسی حکومت قائم ہے جو امن و امان کی علمبردار بننے کے بجائے بد امنی اور بد نظمی کی علمبردار بن گئی ہے۔ اتر پر دیش کی اسمبلی کے انتخاب کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ نے الیکشن کے بعد بلڈوزر چلانے اور استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کو زور و شور سے پورے اتر پر دیش میں پھیلا یا گیاتھا۔’’ بلڈوزر بابا‘‘ کے نام سے یوگی جی کی شہرت ہوئی۔ انتخابی نتائج کے بعد جس دن جشن منایا گیا اس روز مصنوعی بلڈوزروں کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اعلانات اور مظاہروں سے انداز ہو گیا تھا کہ جبر و ظلم کا سلسلہ جلد ہی شروع ہو گا۔ چند دن پہلے مدھیہ پر دیش سے اس کا سلسلہ شروع ہوا، رام نومی کے جلوس پر جان بوجھ کر کہیں سے پتھراؤ کیا گیا اور اسی روز ایک بلڈنگ جس میں مسلمان رہتے تھے اس کی نشاندہی کی گئی اور اسے دیکھتے ہی دیکھتے بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔ اس کے بعد گجرات اور پھر کچھ دنوں سے دہلی کے جہانگیر پوری محلہ میں بلڈوزر سے غریب مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو مسمار کیا جانے لگا۔ پہلے اس محلے میں ہفتے کو ہنومان جینتی نکالی گئی تھی، شوبھا یاترا کے دوران فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے ۔ یاترااور رام نومی کے جلوس میں لاٹھی ڈنڈے کے علاوہ تلوار اور پستول تک کا مظاہرہ علی الاعلان تک کیا گیا یہ سب مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے لئے کیا گیا۔ پولس روکنے کے بجائے تماشائی بنی رہی۔ اگر پولیس فسادیوں کو بر وقت روکتی تو فساد ہرگز نہیں ہوتا۔ پہلے حالات بگاڑے گئے پھر تجاوزات کے مخالف مہم کے نام پر جہانگیر پوری کے سی بلاک میں دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کرنے کی کارروائی انجام دی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ایک مسجد کو بلڈوزر سے اس کے ڈھانچوں کو توڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایم ڈی این سی کی یہ مہم تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی حالانکہ اس کے میئر راجہ اقبال سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مد نظر مہم روک دی گئی۔ یہ سب کچھ اس طرح انجام دیا جا رہا ہے جیسے پہلے سے کوئی اسکرپٹ تیار ہے اور اس کے مطابق بی جے پی کی حکومتیں یکساں پلاننگ کے ساتھ کارروائی کر رہی ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات کے سلسلے میں ایم سی ڈی کا ایکٹ بالکل واضح ہے۔ سیکشن 317 کے تحت کمیشنرکو غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے لئے پندرہ روز پہلے نوٹس دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف سیکشن 322 کے تحت نوٹس دینے کی ضرورت نہیں پڑتی جو سڑکوں پر عارضی طور پر ایسے ڈھانچے مثلاً اسٹال وغیرہ لگا دیئے جاتے ہیں۔ نوٹس جاری ہونے کے بعد اس کے خلاف ٹریبونل میں اپیلوں کی سماعت بھی ہوتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دہلی اور مدھیہ پر دیش نے جو کچھ غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کی مہم کے نام پر کیا گیا نہ تو پندرہ روز پہلے نوٹس جاری کی گئی اور نہ ہی اس کے خلاف اپیل کی سماعت کا موقع دیا گیا۔1978میں سپریم کورٹ نے عارضی غیر قانونی تعمیرات مثلاً جوس اسٹال یا کھانے پینے کا کوئی اسٹال بھی گرانے کے لئے پیشگی نوٹس کا حکم دیا تھا۔ اب سیاسی تھیٹر میں بغیر کسی نوٹس اور سماعت کے بلڈوزر سے مسمار کرنے کی کارروائی ہو رہی ہے اور تلوار اور ہتھیار کی نمائش کی جا رہی ہے۔
غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے لئے غیر قانونی طریقہ حکومتیں استعمال کر رہی ہیں۔تہواروں کے موقع پر تلوار اور دیگر ہتھیاروں کی نمائش بھی ہو رہی ہے۔ حکومتیں خاموش ہیں۔ وزیر اعظم بھی چپّی سادھے ہوئے ہیں۔ اس سنگین حالت کے پیش نظر اپوزیشن کی ایک درجن سے زیادہ جماعتوں کے لیڈروں کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا گیا ہے اور ان کی خاموشی پر سوال کیا گیا ہے۔ حکمراں جماعت پر یہ سنگین الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مذہبی تہوار، رسم و رواج، خورد و نوش، پوشاک و زبان جیسے موضوعات کا استعمال کر کے معاشرے میں صف بندی کر رہی ہے۔ ان رہنماؤں نے ملک کی کئی ریاستوں میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کی شدید مذمت کی ہے اور اس دکھ کا اظہار کیا ہے کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے سرکاری سر پرستی میں اس کا بے دریغ استعمال ہو ریا ہے۔ اشتعال پیدا کرنے اور عوام کو بھڑکانے والے جنونی لوگوں کے بیانات اور قول و فعل پر بھی وزیر اعظم کی خاموشی حیران کن ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیز اور زہر آلود بیانات سے ملک میں صف گیری، شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف وزیر اعظم کی خاموشی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس طرح کے شر پسند عناصر پر مسلح بھیڑ کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ اپوایشن کے لیڈروں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ معاشرے میں پھوٹ ڈالنے والے اس زہریلے نظریات کے ساتھ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بر قرار رکھنے کے لئے متحد و منظم ہو کر سامنے آئیں۔
فرقہ وارانہ آلودگی اور زہر پھیلانے کی مہم حکومت کی سر پرستی میں ان تمام ریاستوں میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت چلائی جا رہی ہے۔ جبر و ظلم کا بھی ایک حد ہوتا ہے اور ایک حد پار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تجاوزات کو ہٹانے کے لئے حکومت حد سے زیادہ تجاوز کر رہی ہے۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سکون کی سانس لینے نہ دیا جائے اس کو ہر طرح سے ہراساں کیا جائے، پریشانی میں ڈالا جائے ، ان کی معیشت تباہ کی جائے، ان کو غربت اور افلاس میں مبتلا کیا جائے، تعلیم کے حصول میں خلل ڈالا جائے (جیسا کہ سر پر کپڑے کا ایک ٹکرا ڈالنے پر کرناٹک میں کیا جا رہا ہے۔) دوسرا مقصد ہے مسلمانوں کو مشتعل کرنا اور ان کے صبر کا امتحان لینا، حکومت چاہتی ہے مسلمان مشتعل ہو جائیں تا کہ ان کی گرفتاری ہو اور جیلیں بھر دی جائیں۔ مہینہ رمضان کا ہے، عید آنے والی ہے دس بارہ دن باقی ہیں، عید کے موقع پر بھی حکمراں جماعت یا حکومت کچھ نہ کچھ کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو بہت ہی صبرو تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ شاہراہوں پر مظاہرے سے کہیں زیادہ قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے۔ اب بھی ایسے جج صاحبان عدالتوں میں پائے جاتے ہیں جو انصاف کی بات کرتے ہیں اور انصاف پر مبنی فیصلے بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو نہ مایوس ہونے کی ضرورت ہے نہ مشتعل اور متزلزل ہونے کی۔ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رجوع الااللہ اور رجوع الا قرآن سے ہم مسلمان اگر چاہیں تو اپنے سارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068 / 9874445664