حضرت اشرف ملت کناڈا کے تین روزہ عالمی تبلیغی دورے پر
مولانا مقبول احمد سالک مصباحی
کینیڈا کے نام کا مطلب گاؤں یا تصفیہ شدہ جگہ کا ہے۔ 1535ء میں اس علاقے کے لوگوں، جو آج کل کیوبیک سٹی کہلاتا ہے، نے جیکوئیس کارٹیئر کو اس جگہ سے سٹاڈاکونا کا گاؤں کہہ کر متعارف کرایا۔ کارٹیئر نے اس لفظ کینیڈا کا استعمال صرف اس جگہ تک محدود نہ رکھا بلکہ ڈونا کونا یعنی جو سٹاڈاکونا کا حاکم تھا، کے زیرِ انتظام پورے علاقے کو یہی نام دے دیا۔ 1547ء تک نقشوں وغیرہ میں اس جگہ اور اس کے ملحقہ علاقوں کو کینیڈا کا نام پڑ گیا تھا۔
کینیڈا کی فرانسیسی کالونی، نیو فرانس دریائے سینٹ لارنس کے ساتھ بسائی گئی۔ بعد ازاں اس کو تقسیم کرکے دو برطانوی کالونیاں بنا دیا گیا جن کے نام اپر کینیڈا اور لوئر کینیڈا تھے۔ بعد میں انھیں ملا کر کینیڈا کا برطانوی صوبہ کہا گیا۔ 1867ء الحاق کے بعد کینیڈا کو ایک نئی ڈومینن کا درجہ دے دیا گیا۔ 1950ء تک اس کا نام ڈومینن آف کینیڈا رہا۔ جوں جوں کینیڈا کو برطانیہ سے مرحلہ وار سیاسی اختیارات اور آزادی ملتی گئی، وفاقی حکومت نے اپنے سرکاری کاغذات میں اور معاہدہ جات میں صرف کینیڈا کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں کینیڈا ایکٹ کے مطابق صرف کینیڈا کا نام استعمال کیا جانے لگا اور اب تک یہی واحد نام قانونی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اسی طرح 1982ء میں قومی دن کے نام کو یوم ڈومین سے بدل کر یوم کینیڈا رکھ دیا گیا۔
کینیڈا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ براعظم شمالی امریکا کے بڑے حصے پر محیط ہے۔ بحر اوقیانوس سے لے کر بحر منجمد شمالی تک پھیلا ہوا ہے۔ کینیڈا کی زمینی سرحدیں امریکا کے ساتھ جنوب اور شمال مغرب کی طرف سے ملتی ہیں۔برطانوی اور فرانسیسی کالونی بننے سے قبل کینیڈا میں قدیم مقامی لوگ رہتے تھے۔ کینیڈا نے برطانیہ سے بتدریج آزادی حاصل کی۔ یہ عمل 1867ء سے شروع ہوا اور 1982ء میں مکمل ہوا۔کینیڈا وفاقی آئینی شاہی اور پارلیمانی جمہوریت کا مجموعہ ہے اور دس صوبہ جات اور تین ریاستوں پر مشتمل ہے۔ کینیڈا کو سرکاری طور پر دو زبانوں والا یعنی اور بین الثقافتی یعنی قوم کہتے ہیں۔ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ کینیڈا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور صنعتی قوم ہے۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کے قدرتی وسائل اور تجارت بالخصوص امریکا کے ساتھ تجارت پر ہے جس کے ساتھ کینیڈا کی طویل المدتی شراکت ہے۔
کناڈا دنیا کاعظیم اور خوش حال جمہوری ملک ہے، کناڈامیں نفرت پسند طاقتوں نے اسلام اورمسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کی،مگربیدارمغز مسلمانوں کی جد وجہد سے اسلامو فوبیاکے خلاف ایک قانون نا فذ ہوگیا ہے جس کے مطابق کناڈا میں اسلام کے خلاف بولنا،مذہب اسلام کو برا بھلاکہنااور مسلمانوں کو بدنام کرنا قانونی طور پر غلط ہوگا، مذہبی اور نسلی امتیاز برتنا غیرقانونی عمل ہوگا۔کناڈا میں اسلامو فوبیا کے خلاف قانون کا نفاذ بہت اہمیت کاحامل ہے، اس کا سہرابراہ راست کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے نام جاتاہے جو نر م خو طبعیت کے حامل اور ایک امن پسند یورپین وزیر اعظم ہیں،امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہونے کے باجود امریکی صدرکے بہت سے انتہا پسندانہ فیصلوں کے شدید مخالف کرتے ہیں۔کنیڈین پارلیمنٹ کایہ امن پسندانہ اقدام دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ مسلم ممالک کے لیے بھی راہ عمل اور درس عبر ت ہے جہاں آزادی کے نام پر سب سے زیادہ اسلام کا مذاق اڑایاجاتاہے،اسلام اور شریعت کے بارے میں بکواس کرنے والوں کے خلاف جب کاروائی کا مطالبہ کیاجاتاہے تو اسے اظہار رائے کی آزادی ختم کرنے کا عنوان دیا جاتاہے،ایسے لوگوں کو دقیانوس اور شدت پسند کہاجاتاہے
کینیڈا کی عدلیہ قانون کی توجیہ اور وضاحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور آئین سے متصادم قوانین کو ختم کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ آف کینیڈا یہاں کی سب سے بڑی عدالت اور آخری فیصلہ کن اتھارٹی ہے۔ اس کی سربراہی جنابہ میڈم چیف جسٹس بیورلے میک لاچلین، پی سی ہیں۔ اس عدالت کے کل نو ارکان ہوتے ہیں جن کا تقرر گورنر جنرل وزیر اعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ اسی طرح تمام اعلیٰ اور اپیل کی عدالتوں کے ججوں کا تقرر وزیر اعظم اور وزیر انصاف اور دیگر غیر حکومتی قانون سے متعلقہ اداروں کے مشورے سے ہوتا ہے۔ وفاقی کابینہ صوبائی اور ریاستی لیول پر اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کرتی ہے۔ ماتحت عدالتوں کی تقرری صوبائی اور ریاستی حکومتیں خود سے کرتی ہیں۔
کینیڈا کا آئین ملک کے قانونی ڈھانچے کی روح ہے اور یہ تحاریر اور غیر تحریری روایات اور رسموں پر مشتمل ہے۔ آئین میں کینیڈا کا آزادی اور حقوق کا چارٹر شامل ہے جو کینیڈا کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادی دیتا ہے اور اس کو کوئی بھی حکومت کسی بھی قانون کے تحت ختم نہیں کر سکتی۔ تاہم اس میں ایک ایسی شق شامل ہے جس سے وفاقی پارلیمان اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس چارٹر کے کچھ حصوں کو عارضی طور پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کے لیے ختم کر سکتے ہیں۔
کینیڈا دس صوبوں اور تین ریاستوں کا مجموعہ ہے۔ صوبہ جات کے نام البرٹا، برٹش کولمبیا، مینی ٹوبہ، نیو برنزوک، نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبریڈار، نووا سکوشیا، اونٹاریو، پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ، کیوبیک اور ساسکچیوان ہیں۔ ریاستوں میں نارتھ ویسٹ ریاست، نُناوُت اور یوکون ریاست شامل ہیں۔ صوبوں کو وفاق کی جانب سے بہت زیادہ خود مختاری حاصل ہے اور ریاستوں کو کچھ کم آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح ہر ایک کی اپنے صوبائی اور ریاستی علامات ہیں۔
صوبہ جات کی ذمہ داریوں میں کینیڈا کے سماجی پروگرام شامل ہیں مثلا ہیلتھ کیئر، تعلیم اور فلاح و بہبود وغیرہ اور یہ سب صوبے مل کر وفاق کے لیے رقم جمع کرتے ہیں۔ کینیڈا کا یہ ڈھانچہ دنیا میں واحد اور اپنی طرز کا انوکھا نظام ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں میں قومی پالیسیاں بنا سکتی ہے مثلاً کینیڈا کا ہیلتھ ایکٹ، جن میں سے صوبہ جات اپنی مرضی کی پالیسی منتخب کر سکتے ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ برابری کے پروگرام یعنی ایکویلائزیشن پے منٹس کے نظام کے تحت وفاق ہر صوبے کو برابر رقوم دیتا ہے تاکہ غریب اور امیر، ہر صوبے کو ہر پروگرام کے لیے یکساں رقم ملے۔
تمام صوبہ جات کی اپنی صرف ایک اسمبلی یا مقننہ ہوتا ہے۔ تمام ارکان مل کر اپنے پریمئر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہی طریقہ کار وزیر اعظم کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر صوبے میں گورنر کا نائب لیفٹیننٹ گورنر بھی ہوتا ہے جو ملکہ کی نمائندگی کرتا ہے جس کا انتخاب صوبوں کی مشاورت سے وزیر اعظم خود کرتا ہے۔ آج کل نائب گورنر کے انتخاب میں صوبوں کا بہت عمل دخل ہو گیا ہے۔(یہ تمام معلومات وکی پیڈیا سے ماخوذ ہیں)
مجموعی طور پر کناڈا قدرتی ذارائع سے مالال ایک انتہائی خوبصورت ملک ہے،جہاں آبادی کے علاوہ ہندوستان کی زیادہ تر خصوصیات پائی جاتی ہیں،دریا،پہاڑ،صحرا،سمندر،ندی نالے،درخت جنگل،بیابان،اور سبزہ زار کھیتیاں،شفاف نہریں وغیرہ،کناڈ اکی تاریخ ایک شاندار تاریخ ہے،بھارت کی طرح اسے بھی آزادی کے لیے طویل جد وجہد کرنی پڑی،آبادی کی اکثریت امن پسند ہے،دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی مٹھی بھر لوگ امن کو خراب کرکے کناڈا کو بدنام کرنا چاہتے ہیں،مگر وہاں کے اچھے اور پیارے وزیر اعظم مسٹرجسٹن ٹروڈو ایسے لوگوں سے نمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔
امریکا کی طرح یہاں بھی اسلام اور مسلمانوں کے پھلنے پھولنے کے بہت مواقع ہیں،شرط ہے کہ بھارت کے تنگ دل مسلمان بھارت کی تنگ گلیوں سے باہر نکلیں، دیگر قومیں خوب نکلیں اور بہت پہلے نکلیں،اورکناڈا جیسے خوش حال اورسیع وعریض ملک کے وسیع رقبے پر قابض ہوگئیں، مگر مسلمانوں کی ساری توجہ سعودیہ اور دبئی اورکویت وقطر کی طرف رہی،وہاں انھوں نے بطور مزدور کام کرنے کو ترجیح دی اور یہ ان کی معاشی مجبوری بھی تھی،کناڈا امریکا کی طرح دنیا کے بڑے بڑے اہل علم وہنر کی ہجرت گاہ ہے،یہاں کی پرامن فضا اہل فن کو ایسے لوریاں دیتی ہے جیسے ایک ماں اپنے روتے ہوئے بچے کو۔عالمی سطح کے مفکر اور مصنف علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب بانی وسربراہ اعلیٰ منہاج ا لقرآن بھی اب یہیں سے اپنی تحریک کی قیادت کرتے ہیں،تیس جلدو ں میں موسوعہ قرآنیہ پیش کرنے کے بعد اب ساٹھ جلدوں میں موسوعہ حدیثیہ لکھنے کا سفر بھی یہیں سے شروع ہوا ہے،جو جلد پایہ تکمیل کوپہونچے گا۔ایک اطلاع کے مطابق مولانا طارق جمیل بھی کناڈا کی شہریت حاصل کرچکے ہیں،بھارت کے بڑے بڑے اسٹارز اور بزنس مین کناڈا کی شہریت اختیار کران اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ہمیں خوشی ہے کہ کرونا کے حالات کے ختم ہونے کے بعد حضور اشرف ملت حضرت مولانا سید محمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی بانی وصدر آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ اورچیر مین ورلڈ صوفی فورم کناڈ اکی سرزمین پرقدم رکھ چکے ہیں،ٹورنٹو ایرپورٹ پر حضرت حسن شاہ جامی اپنے دوست واحباب کے ساتھ حضرت کا پرتپاک استقبال کیا،انشاء اللہ حسب ذیل نظام الاوقات کے مطابق 26/جولائی 2023ء بروز بدھ ذکر اہل بیت اورشہدائے کربلابمقام جامع مسجدخاتم الانبیاساؤتھ کتھنر(کناڈا)27/جولائی 2023 ء بروز جمعرات محفل ذکر وفکر متعلقہ پیغام امام حسین بمقام سید شہاب ہاؤس 191،اپلیوڈاسٹریٹ،پلیٹ سیول انٹاریواین۔جے،۱یس۔او،28/جولائی 2023ء بروز جمعہ کناڈ میں پہلی نماز جمعہ بمقام جامع مسجد ریاض الجنہ،بعد نماز جمعہ سات بج کر 45منٹ پر شہدائے کربلا کانفرنس،کا انعقاد ہوگا۔کناڈ تما سنی صوفی مسلمانوں سے گذارش ہے کہ اشرف ملت کے پروگرام میں پہنچ کر اوران کے بیانات کو سن کر اپنے قلوب کومنور ومجلیٰ کریں۔
یہ ابھی آغاز ہے،انشاء اللہ آئندہ دنوں میں امن اور قانون کے سائے میں ورلڈ صوفی فورم کے بینر تلے اسلام کی بنیادی معلومات اور صوفیائے کرام کی صوفیانہ تعلیمات کو عام کرنے کے لیے جد وجہد کی جائے گی۔یوروپ کے بارے میں ہمارا مذہبی طبقہ زیادہ تر منفی سوچ رکھتا ہے، یوروپ کی عریانیت،اورکچھ فحاشی کے بارے میں سن کر اور پڑھ کر سخت بدگمان رہاہے،جس کی وجہ سے وہاں کے بارے میں کبھی کچھ سوچنے اور سمجھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی،حالانہ جو حضرات صائب الرائے تھے یا جو جماعتیں چالاک تھیں وہ بہت پہلے وہاں پہونچیں اور وہاں کی کمیونیٹی میں اپنا ایک مقام بنا لیا،آج ان کے وہاں بڑے بڑے سینٹر،کالج،دعوہ گھر،مساجس،لنگر خانے اور تبلیغی مراکز موجود ہیں۔بعض مشائخین عظام کے بارے میں معلوم ہو اکہ انھوں نیاآج سے پچاس سال پہلے یوروپ میں قدم رکھا مگر وہ قدم ابھی وہیں پر ہے آگے نہیں بڑھ سکا۔حضرت اشرف میاں ایک متحرک فععال اور تعمیری ذہن وفکر کے مالک ہیں،اگر اللہ کی رحمت کاملہ شامل حال رہی تو انشاء اللہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔احباب سے درخواست کہ حضرت کی کامیاب اور صحت بخش واپسی کے لیے دعاکریں۔